Maktaba Wahhabi

492 - 738
مروی ہے۔معجم طبرانی کبیر اور ابن ابی حاتم کی العلل میں اُم المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے ابو علی الطوسی کی ’’الاحکام‘‘ میں حضرت علی و ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث بھی اسی طرح ہے،لیکن اس کی سند میں علی بن عاصم نامی راوی ضعیف ہے۔[1] گویا بالوں کو اس انداز سے سمیٹنے کی ممانعت میں دوسری حکمت یہ ہے کہ ایسا کرنے سے نمازی کی نماز میں شیطان کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے،کیونکہ وہ اس کے بالوں کی گانٹھ میں ڈیرا ڈال لیتا ہے۔ ان سب قباحتوں سے بچنے کے لیے مَرد نمازی کو اپنے بالوں اور کپڑوں کو لپیٹنا سمیٹنا نہیں چاہیے،بلکہ معمول کی حالت ہی میں رہنے دینا چاہیے،تاکہ وہ بھی اس کے ساتھ خالق و مالک کے دربار میں سجدہ ریز ہولیں۔یہ بھی ایک تیسری حکمت ہے۔[2] رہا معاملہ ان چیزوں کے خاک آلود ہونے کا تو آج الحمدللہ وہ حالات ہی نہیں۔مساجد عمدہ قسم کی صفوں،دریوں اور قالینوں سے مزین ہیں،لیکن یہ اصولی باتیں ہیں جو کبھی کسی کو دورانِ سفر پیش آ سکتی ہیں،لہٰذا اس کی ہدایات موجود ہیں۔ صحیح مسلم،سنن ابو داود و نسائی،صحیح ابن حبان اور مسند احمد و ابو عوانہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک شخص(عبداللہ بن حارث)کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ اس نے اپنے بالوں کو پیچھے باندھا ہوا تھا تو انھوں نے اس کے بالوں کو کھولناشروع کر دیا اور پھر فرمایا کہ مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سنا ہے کہ ایسے شخص کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّمَا مَثَلُ ہٰذَا کَمَثَلِ الَّذِیْ یُصَلِّیْ وَہُوَ مَکْتُوْفٌ))[3] ’’اس شخص کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی آدمی اس حال میں نماز پڑھ رہا ہو کہ اس کے بازوؤں کو اس کی پشت پر باندھ دیا گیا ہو۔‘‘ امام ابن الاثیر نے غریب الحدیث میں اس حدیث کا معنی یہ لکھا ہے کہ جب اس کے بال کھلے ہوں گے تو بوقت سجدہ وہ بھی زمین پر لگیں گے،جس سے اس نمازی کو ان کے بھی سجدہ ریز ہونے کا ثواب ملے گا،لیکن اگر وہ اپنے بالوں کو باندھے ہوئے ہوگا تو وہ سجدہ نہیں کر پائیں گے۔اس
Flag Counter