Maktaba Wahhabi

530 - 738
اُسے چاہیے کہ وہ اس جلسے والی کیفیت ہی کو اختیار کرے،وہ چاہے حنفی ہو یا شافعی۔‘‘[1] انہی احادیث کے پیش نظر امام شافعی،ایک روایت میں امام احمد بن حنبل اور علماء حدیث کی ایک جماعت ’’جلسۂ استراحت‘‘ کی مشروعیت کی قائل ہے۔علامہ ابنِ قیم،امام ابنِ قدامہ،حافظ ابنِ حجر اور امام شوکانی نے خلال سے نقل کیا ہے کہ امام احمد نے اپنے دوسرے قول سے رجوع کر لیا تھا اور مطلقاً ’’جلسۂ استراحت‘‘ کی مشروعیت و استحباب کے قائل ہو گئے تھے۔[2] مسائل الامام احمد میں ابن ہانی نے کہا ہے: ’’رَاَیْتُ اَبَا عَبْدِ اللّٰہِ رُبَمَا یَتَوَکَّأُ عَلٰی یَدَیْہِ إِذَا قَامَ فِي الرَّکْعَۃِ الْأَخِیْرَۃِ،وَرُبَمَا اسْتَوٰی جَالِسًا ثُمَّ یَنْہَضُ‘‘[3] ’’میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو دیکھا ہے کہ وہ آخری رکعت کے لیے اٹھتے وقت ہاتھوں کی ٹیک سے کھڑے ہو جاتے اور کبھی صحیح طرح سے بیٹھ کر پھر سے اٹھتے تھے۔‘‘ امام اسحاق بن راہویہ کا اختیار بھی یہی ہے کہ جلسۂ استراحت مشروع ہے۔چنانچہ ’’مسائل المروزی‘‘ میں ان کا قول ہے: ’’مَضَتِ السُّنَّۃُ مِنَ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم اَنْ یَّعْتَمِدَ عَلٰی یَدَیْہِ وَیَقُوْمَ ‘ شَیْخًا کَانَ اَوْ شَابًّا‘‘[4] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی رہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوان تھے یا بوڑھے،اپنے ہاتھوں پر اعتماد کرتے ہوئے(جلسۂ استراحت کر کے)اُٹھتے تھے۔‘‘ گویا امام اسحاق بن راہویہ،شافعی،احمد بن حنبل،داود ظاہری اور علماء حدیث کی ایک جماعت کا اختیار ’’جلسہ استراحت‘‘ صحیح و صریح احادیث سے ثابت ہے۔اب عمل کرنا یا نہ کرنا نمازی کا اپنا فعل ہے۔یہ جلسہ مستحب ہے،فرض و واجب بھی نہیں کہ تارک پر ملامت کی جا سکے۔
Flag Counter