Maktaba Wahhabi

559 - 738
اول‘‘ کہا گیا ہے،ورنہ مصنف عبدالرزاق میں اس حدیث کے الفاظ ہیں: ((فَاِذَا قَعَدَ اَحَدُکُمْ فَلَیَکُنْ اَوَّلُ قَوْلِہٖ:التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ۔۔۔الخ)) ’’تم میں سے جب کوئی قعدہ کرے تو سب سے پہلے ’’التَّحِیَّاتُ لِلّٰہ۔۔۔‘‘ پڑھے۔‘‘ اسی طرح سنن کبریٰ بیہقی میں اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں بھی صرف ’’اوّل‘‘ آیا ہے،چنانچہ وہ فرماتی ہیں: ((کَانَ اَوَّلُ مَا یَتَکَلَّمُ بِہٖ عِنْدَ الْقَعْدَۃِ:التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ))[1] اس حدیث کی سند کو علامہ ابن الملقن اور شیخ البانی جیسے کبار محدثین نے ’’جید‘‘ قرار دیا ہے۔لہٰذا امام نووی رحمہ اللہ کا اعتراض بھی ختم ہو گیا اور معلوم ہوا کہ التحیات سے پہلے بسم اللہ پڑھنی ثابت نہیں ہے۔بعض احادیث میں التحیات کے شروع میں بسم اللہ کے الفاظ آئے ہیں،لیکن وہ ضعیف ہیں۔[2] 1۔ چنانچہ موطا امام مالک میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ وہ بہ وقتِ تشہد کہا کرتے تھے:’’بِسْمِ اللّٰہِ التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ۔۔۔الخ ‘‘[3] علامہ زرقانی شرح موطا میں لکھتے ہیں کہ اس موقوف اثر کے شروع میں بسم اللہ آئی ہے۔لیکن یہ موقوف ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے۔ 2۔ اسی طرح سنن سعید بن منصور اور مصنف عبدالرزاق میں حضرت عمر رضی اللہ سے مروی تشہد کے شروع میں بھی مذکور ہے،جبکہ موطا میں حضرت عمر رضی اللہ سے مروی تشہد کے شروع میں بسم اللہ نہیں ہے،گویا یہ دونوں باہم متعارض ہوئیں۔ 3۔ اُدھر ترمذی میں تعلیقاً اور سنن نسائی و ابن ماجہ اور علل ترمذی و مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ سے موصولاً و مرفوعاً مروی ہے: ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ بِاسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ التَّحِیَّاتُ۔۔۔الخ)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ’’التّحِیّات‘‘ اس طرح سکھلایا کرتے تھے جس طرح کوئی قرآنی
Flag Counter