Maktaba Wahhabi

613 - 738
الَّتِیْ یَکُوْنُ فِیْہَا التَّسْلِیْمُ(وَفِی رِوَایَۃٍ عِنْدَ ابْنِ حَبَّان)الَّتِیْ تَکُوْنُ خَاتِمَۃُ الصَّلَاۃِ)قَدَّمَ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی وَنَصَبَ الیُمْنٰی وَقَعَدَ عَلٰی مَقْعَدَتِہٖ))[1] ’’پھر جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھے تو بائیں پاؤں پر بیٹھے اور دائیں کو کھڑا رکھا۔جب آخری رکعت کے بعد بیٹھے(اور عبدالحمید کی روایت میں ہے کہ جب اس رکعت کے بعد بیٹھے جس کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے،اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے:جب اس رکعت کے بعد بیٹھے جو نماز کی اختتامی رکعت ہوتی ہے)تو بایاں پاؤں آگے گزار دیا اور دائیں کو کھڑا رکھا اور سرین پر بیٹھے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح کے دوران میں فتح الباری میں لکھا ہے: ’’اس حدیث میں امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کے لیے ایک قوی دلیل پائی جاتی ہے کہ پہلے قعدے میں بیٹھنے کا انداز آخری دوسرے قعدے سے مختلف ہے۔آگے ان دونوں قعدوں میں بیٹھنے کے دو الگ الگ انداز ہونے کی حکمتیں بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اسی حدیث سے امام شافعی نے اس بات پر بھی استدلال کیا ہے کہ فجر(وجمعہ)کا قعدہ بھی دوسری نمازوں کے قعدئہ ثانیہ کی طرح ہی ہے،کیونکہ حدیث کے الفاظ:((فِی الرَّکْعَۃِ الْأَخِیْرَۃِ(أَوِ الآخِرَۃِ)حَتّٰی اِذَا کَانَتْ السَّجْدَۃُ الَّتِیْ یَکُوْن فِیْہَا التَّسْلِیْم))[2] ’’آخری رکعت کے قعدے میں،یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رکعت کے قعدے تک پہنچے جس کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے‘ ‘۔عام ہیں(نماز چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو)‘‘ ان استدلالات کو نقل کر کے علامہ عبید اللہ رحمانی نے المرعاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ میرے نزدیک یہ استدلال سخت محل نظر ہے جو کسی صاحبِ فکر سے مخفی نہیں۔[3] البتہ علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی میں لکھا ہے کہ امام شافعی اور ان کے موافقین کا مسلک ہی میرے نزدیک راجح تر ہے۔
Flag Counter