Maktaba Wahhabi

617 - 738
گویا یہ ایک مطلق حدیث ہے۔جبکہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ سے مروی صحیح بخاری اور دیگر کتب والی حدیث مقید ہے۔اس میں پہلے قعدے اور دوسرے قعدے کا باقاعدہ تذکرہ اور دونوں میں الگ الگ انداز سے بیٹھنے کا ذکر وارد ہوا ہے۔لہٰذا حضرت وائل بن حجر رضی اللہ والی اس مطلق حدیث کو حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ والی مقید حدیث پر محمول کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ اس میں قعدئہ اولیٰ کا ذکر وارد ہوا ہے۔اس بات کی تائید سنن نسائی میں حضرت وائل رضی اللہ ہی سے مروی ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے: ((وَاِذَا جَلَسَ فِیْ الرَّکْعَتَیْنِ اضْطَجَعَ الْیُسْرٰی وَنَصَبَ الْیُمْنٰی))[1] ’’جب دو رکعتوں کے بعد قعدہ کیا تو بائیں پاؤں کو بچھا لیا اور دائیں کو کھڑا کر لیا۔‘‘ ان الفاظ سے واضح ہو گیا کہ حضرت وائل رضی اللہ والی حدیث سے مراد پہلا قعدہ ہے نہ کہ دونوں قعدے۔اسی طرح دونوں طرح کی حدیثیں یکجا معمول بہ بھی ہو جاتی ہیں اور ان کے مابین مطابقت پیدا ہو جاتی ہے،جو یہاں ضروری بھی ہے،تاکہ ان کے مابین پیدا ہونے والا تعارض ختم کیا جا سکے۔ 2۔ اسی طرح صحیح مسلم،ابی عوانہ،ابو داود،ابن ماجہ،بیہقی،طیالسی،ابن ابی شیبہ اور مسنداحمد میں مروی اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کے ان الفاظ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے،جن میں وہ فرماتی ہیں: ((وَکَانَ یَقُوْلُ فیْ کُلِّ رَکْعتَیْنِ التّحِیَّۃَ،وَکَانَ یَفْرِشُ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی وَیَنْصِبُ رِجْلَہُ الْیُمْنٰی وَکَانَ یَنْہٰی عَنْ عُقْبَۃِ الشَّیْطَانِ۔۔۔الخ))[2] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعتوں کے بعد ’’التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ‘‘ پڑھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں پاؤں کو بچھا لیتے اور دائیں کو کھڑا کر لیتے اور عقبۂ شیطان(دونوں پاؤں کو کھڑا کر کے ایڑیاں ملا کر ان کے اوپر بیٹھنے)سے منع فرماتے تھے۔‘‘ علامہ ابن الترکمانی نے اس حدیث سے بھی دونوں ہی قعدوں میں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھنے کی افضلیت پر استدلال کیا ہے اور اس حدیث میں وارد اطلاق سے واقعی اسی کا پتا چلتا ہے۔
Flag Counter