Maktaba Wahhabi

76 - 738
’’اگر تم خوف زدہ ہو تو پیدل یا سوار جس طرح ممکن ہو نماز پڑھ لو،اور جب تم حالتِ امن میں ہو تو پھر اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح یاد کرنے(نماز پڑھنے)کا طریقہ اس نے تمھیں سکھلایا ہے،جو تم پہلے نہیں جانتے تھے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((مُسْتَقْبِلِی الْقِبْلَۃِ اَوْ غَیْرَ مُسْتَقْبِلِیْہَا))[1] ’’تم قبلہ رو ہو یا نہ ہو۔‘‘ صحیح بخاری میں نافع رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔گویا حالتِ خوف میں استقبالِ قبلہ کے سلسلے میں رعایت ہو جاتی ہے۔ایسے موقع پر پڑھی جانے والی نماز کو ’’صلاۃ الخوف‘‘ کہا جاتا ہے،جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا ہے اور حدیث شریف میں بھی۔’’صلاۃ الخوف‘‘ کو ادا کرنے کے کئی طریقے ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں،وہ ان کے مقام پر ذکر کی جائے گی۔ان شاء اللہ قبلہ رُو ہونے کے سلسلے میں یہی حکم مریض کے لیے بھی ہے جو لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ سکتا ہے اور قبلہ رُو ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔اس کی مجبوری و بیماری کے اس حکم پر استدلال ایک تو اس ارشادِ الٰہی سے کیا جا سکتا ہے جس میں ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾[التغابن:16] ’’جہاں تک تمھارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ ایسے ہی ایک جگہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾[البقرۃ:286] ’’اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ اسی طرح ایسی کئی احادیث بھی ہیں جن سے اس مسئلے پر استدلال ممکن ہے کیونکہ طاقت سے زیادہ کا حکم ہی نہیں اور ایسا مریض لاچار ہے جو لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھتا ہے،استقبالِ قبلہ اس کے بس سے باہر ہوتا ہے۔لہٰذا یہ حکمِ استقبال اُس سے ساقط ہو جاتا ہے۔ اُن احادیث میں سے ایک حدیث وہ بھی ہے جو آٹھ مختلف اسانید سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
Flag Counter