Maktaba Wahhabi

100 - 738
’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے اور پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔‘‘ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ بہ طورِ خاص نوٹ فرمائیں: ((فَاِذَا اَرَادَ اَنْ یَّرْکَعَ قَامَ فَرَکَعَ))[1] ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہو جاتے اور رکوع کرتے۔‘‘ اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیح بات تو یہ ہے کہ نمازِ وتر کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو رکعتیں پڑھنا محض یہ بتلانے کے لیے تھا کہ وتر کے بعد بھی نماز جائز ہے اور یہ کہ نفلی نماز بیٹھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد نماز پڑھنے پر ہمیشگی اختیار نہیں فرمائی تھی،بلکہ یہ عمل صرف دو ایک یا چند ایک دفعہ کیا ہے۔[2] امام نووی رحمہ اللہ کی اس تشریح سے معلوم ہوا کہ وتر کے بعد دو نفلوں پر ہمیشگی اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ہاں کبھی کبھار پڑھ لینے کے جواز کا پتا چلتا ہے۔ان دونوں حدیثوں میں بہ ظاہر تضاد نظر آتا ہے،کیونکہ ایک میں حکم ہے کہ وتر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھو،وہ تمھاری آخری نماز ہونی چاہیے،جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔اہلِ علم خصوصاً علماء اصول نے کہا ہے کہ جب قولی اور فعلی دو حدیثوں میں الگ الگ اُمور آئیں تو افرادِ امت کے لیے قولی حدیث پر عمل کرنا ضروری ہوگا،کیونکہ فعلی حدیث میں وارد عمل مبارک ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہو۔ غرض کہ اگرچہ یہ دو نوافل خصائص میں سے نہیں،لیکن ان پر ہمیشگی بھی صحیح نہیں،بلکہ اس حدیث سے محض ان کا جواز اخذ کیا جا سکتا ہے۔اگر کبھی کبھار اس جواز پر عمل کرنا ہو تو آدھے ثواب والا کام کیوں کیا جائے کہ بیٹھ کر پڑھی جائے؟کھڑے ہو کر پڑھیں جس سے پورا ثواب ملے۔ وتر پڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھ لیتے تھے ان میں بھی رکوع کھڑے ہو کر کرتے تھے،جیسا کہ صحیح مسلم والی مذکورہ حدیث سے پتا چلتا ہے۔بیٹھ کر نماز پڑھنے پر آدھے ثواب کا پتا دینے والی احادیث فقہ حنفی کی معتبر کتاب ’’الہدایۃ‘‘ کے ’’باب النوافل‘‘ میں بھی مذکور ہیں۔[3] ماضی قریب کے معروف حنفی عالم مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب بہشتی زیور کے حصہ دوم
Flag Counter