Maktaba Wahhabi

132 - 738
اس حدیث کو صحیح ماننے پر صرف مکہ ہی میں نہیں بلکہ عام جگہ پر بھی سُترہ نہ ہونے کی شکل میں نمازی کے آگے سے گزرنے کے جواز کی بات چل نکلے گی،جیسا کہ امام ابنِ حبان کی تبویب ’’الإحسان‘‘(6/ 127)اور ایسے ہی بعض دیگر ائمہ کی تعلیقات سے پتا چلتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سارے مکے خصوصاً مسجد حرام میں سُترے کے بغیر ہی نماز جائز ہے،اُن کا استدلال اُس حدیث سے بھی ہے جو معجم طبرانی کبیر میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،جس میں وہ بیان فرماتے ہیں: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم صَلّٰی وَالرِّجَالُ وَالنِّسَائُ یَطُوْفُوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ بِغَیْرِ سُتْرَۃٍ مِمَّا یَلِی الْحَجَرَ الْاَسْوَدَ))[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرِ اسود کے قریب سُترے کے بغیر نماز پڑھی،جبکہ مَرد اور عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے(بیت اللہ کا)طواف کرتے(ہوئے گزر رہے)تھے۔‘‘ یہ حدیث بھی ضعیف ہے،کیونکہ اس کی سند کے ایک راوی ’’یاسین الزیات‘‘ کو علامہ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں متروک لکھا ہے،لہٰذا یہ حدیث بھی قابلِ استدلال نہ ہوئی۔ غرض بعض فقہا نے کہا ہے کہ پورے شہرِ مکہ میں نہ سہی،البتہ حرمِ مکی بالخصوص طواف کرنے والے کو اگر کسی نمازی کے سامنے سے گزرنا پڑے تو اس کے لیے گزرنے کا گناہ معاف ہے،کیونکہ وہاں طواف کرنے والے کی ضرورت و مجبوری ہوتی ہے،جبکہ دوسرے کسی کے لیے یہ نہیں ہے۔[2] لیکن بعض صحابہ کے آثار سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ مکہ اور غیر مکہ اور مسجدِ حرام اور غیر مسجد حرام ہر جگہ سُترے کا اہتمام اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے اجتناب کیا جائے۔چنانچہ صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف ابن ابی شیبہ و مصنف عبدالرزاق میں موصولاً مروی ہے: ((وَرَدَّ ابْنُ عُمَرَ فِی التَّشَہُّدِ وَفِی الْـکَعْبَۃِ وَقَالَ:اِنْ اَبٰی اِلاَّ اَنْ تُقَاتِلَہٗ فَقَاتِلْہُ))[3] ’’حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہما)نے خانہ کعبہ میں بھی نماز پڑھتے ہوئے تشہدکے دوران میں آگے سے گزرنے والے کو روک دیا اور فرمایا:اگر کوئی لڑائی کے بغیر نہ رکے تو اس سے لڑائی کرو۔‘‘
Flag Counter