Maktaba Wahhabi

144 - 738
’’حضرت عبداللہ رضی اللہ نے کسی آدمی کو اکیلے اپنے پاؤں ملا کر نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ اس نے سنت کی مخالفت کی ہے،اگر یہ آدمی اپنے دونوں پاؤں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھتا تو افضل ہوتا۔‘‘ دوسری روایت میں ہے: ((کَانَ اَعْجَبَ اِلَيَّ))[1] ’’(کہ یہ فاصلہ)مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مرسل قرار دیا ہے اور مرسل ضعیف کی اقسام میں سے ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف سنن نسائی‘‘ میں وارد کر کے ’’ضعیف الاسناد‘‘ اور ’’إرواء الغلیل‘‘ میں ضعیف قرار دیا ہے،جبکہ اس حدیث کے برعکس حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((صَفُّ الْقَدَمَیْنِ،وَوَضْعُ الْیَدِ عَلَی الْیَدِ مِنَ السُّنَّۃِ))[2] ’’پاؤں ملانا اور ہاتھ کو ہاتھ پر رکھنا سنت ہے۔‘‘ لیکن یہ حدیث بھی ضعیف ہے،البتہ اس کی تائید بعض صحیح آثار سے ہوتی ہے،جن میں سے پہلا اثر صحیح سند کے ساتھ ہشام بن عروہ رحمہ اللہ سے مروی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ’’اَخْبَرَنِیْ مَنَ رَاٰی ابْنَ الزُّبَیْرِ یُصَلِّیْ قَدْ صَفَّ بَیْنَ قَدَمَیْہِ وَاَلْزَقَ اَحَدَہُمَا بِالْاُخْرٰی‘‘[3] ’’مجھے اس آدمی نے بتایا جس نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو پاؤں ملا کر نماز پڑھتے دیکھا،یعنی پاؤں کے مابین کوئی فاصلہ نہ تھا۔‘‘ اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔[4] ان آثار سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دونوں پاؤں ملا کر رکھنے چاہییں،ان کی تائید دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے،جبکہ پاؤں کو الگ الگ رکھنے کا پتا دینے والی ایک ہی حدیث ہے اور وہ بھی ضعیف ہے۔لہٰذا ثانی الذکر پر عمل ہی اولیٰ ہے۔جبکہ فقہاے مذاہب اربعہ کے یہاں نمازی کے پاؤں کے مابین فاصلے کی الگ الگ مقدار مقرر ہے:
Flag Counter