Maktaba Wahhabi

145 - 738
1۔ احناف کے نزدیک نمازی کے دونوں پاؤں کے مابین چار انگلی کا فاصلہ ہونا چاہیے۔ 2۔ شافعیہ نے اس فاصلے کی مقدار ایک بالشت رکھی ہے۔ 3۔ مالکیہ اور حنابلہ نے متوسط درجے کا فاصلہ بیان کیا ہے کہ نہ تو پاؤں کو بالکل جوڑ کر رکھے اور نہ ہی بہت دُور دُور رکھے۔[1] نمازی کی نظر کہاں ہونی چاہیے؟ بعض لوگ جو نماز کے دوران میں دائیں بائیں اور آگے دُور تک جھانک لیتے ہیں،اُن کا یہ فعل درست نہیں،بلکہ خشوع و خضوع کے منافی ہے۔نظریں پاؤں سے لے کر جاے سجدہ کے اندر اندر ہی رہنی چاہییں،اس سے آگے نہ اس کے اوپر کی جانب ہوں،کیونکہ مصنف ابن ابی شیبہ،سنن کبریٰ بیہقی اور مستدرک حاکم کی ایک مرسل حدیث میں امام ابن سیرین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی رَفَعَ بَصَرَہٗ اِلَی السَّمَآئِ فَنَزَلَتْ﴿اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خٰشِعُوْنَفَطَاْطَاَ رَاْسَہٗ))[2] ’’(شروع میں)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں آسمان کی طرف دیکھ لیا کرتے تھے تو(سورۃ المومنون)کی آیت(2)نازل ہوئی(جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا):’’فلاح پانے والے وہ مومن ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘ تو اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سرِ اقدس کو جھکا کے رکھنا شروع کر دیا۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان کی طرف سر اٹھانا شاید تحویلِ قبلہ سے پہلے تھا،جس کا ذکر خود قرآنِ کریم میں بھی آیا ہے۔سنن سعید بن منصور میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں: ((وَکَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ لِلرَّجُلِ اَنْ لَّا یُجَاوِزَ بَصَرُہٗ مُصَلَّاہُ))[3] ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ نمازی کی نظر اس کی جاے سجدہ سے آگے نہ جائے۔‘‘ یہ حدیث سنداً تو ضعیف ہے،البتہ ایک دوسری روایت بھی ہے جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے
Flag Counter