Maktaba Wahhabi

271 - 738
جبکہ ان کے دلائل میں سے جو احادیث صحیح ہیں وہ صریح نہیں اور جو صریح ہیں وہ صحیح نہیں۔اس موضوع کی مکمل تفصیلات بیان کرنے کے لیے تو ایک دفتر درکار ہے۔‘‘[1] 5۔ امام شوکانی نے علامہ ابن قیم کا یہ اقتباس نیل الاوطار میں نقل کیا ہے اور کوئی تبصرہ نہیں کیا جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ علامہ ابن قیم کے اس موقف کی تائید اور موافقت کرتے ہیں۔[2] 6۔ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے ’’نصب الرایۃ‘‘ میں حضرت انس رضی اللہ سے مروی سِراً اور جہراً ہر دو طرح کی روایات ملنے کی توجیہ پیش کی ہے اور پھر بالسِّر پڑھنے سے تعلق رکھنے والی حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بلند آواز سے ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے کو ترک کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک توارث کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،کیونکہ جہری قراء ت والی نمازیں ہمیشہ صبح و شام ہوتی تھیں۔اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ جہراً پڑھا کرتے ہوتے تو یہ بات سب کو معلوم ہوتی اور کوئی جہراً پڑھنے کا انکار نہ کرتا۔کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین عظام رحمہم اللہ اور اکثر اہلِ علم اُس عمل کے خلاف ہمیشگی کرتے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔[3] 7۔ علامہ زیلعی کے دو طویل اقتباسات جن کا خلاصہ ہم نے ذکر کیا ہے،علامہ عبدالرحمن مبارک پوری نے ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ میں نقل کیے ہیں اور ان پر کوئی رد ّو قدح یا تبصرہ و تعاقب نہیں کیا جس سے ان کی موافقت کا اشارہ ملتا ہے۔بلکہ ایک جگہ تو انھوں نے سِراً ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ،جمہور اہلحدیث و اہل رائے،فقہاے امصار اور امام شافعی رحمہ اللہ کے اصحاب کی ایک جماعت کا مسلک بتاتے ہوئے لکھا ہے: ’’اَلْاِسْرَارُ بِہَا عِنْدِیْ اَحَبُّ مِنَ الْجَہْرِ بِہَا،وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ‘‘[4] ’’بسم اللّٰه کو سِراً پڑھنا میرے نزدیک جہراً پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے۔واللہ اعلم۔‘‘ 8۔ علامہ عبدالعزیز بن باز جو عالم اسلام کے معروف اور ہر دل عزیز عالم گزرے ہیں،انھوں نے
Flag Counter