Maktaba Wahhabi

272 - 738
اپنی نگرانی اور تحقیق سے جو ’’فتح الباری‘‘ شائع کروائی ہے،اس کے حاشیے میں لکھا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ والی حدیث کو مقدم رکھا جائے جس میں بلا آواز ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے کا ذکر ہے،کیونکہ وہ حدیث صحیح بھی ہے اور اس مسئلے میں صریح بھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بلند آواز سے ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے کا پتا دینے والی حدیث کو اس انداز پر محمول کیا جائے گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار بلند آواز سے بھی ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھ لیا کرتے تھے،تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقتدی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات کی تعلیم دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھتے ہیں۔اس طرح دونوں قسم کی احادیث کے مابین مطابقت و موافقت پیدا ہو جاتی ہے۔جبکہ آہستگی سے ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے کے مشروع ہونے کا پتا دینے والی حضرت انس رضی اللہ والی حدیث کی تائید کئی دیگر احادیث سے بھی ہوتی ہے۔وَاللّٰہُ اَعْلَمُ[1] 9۔ علامہ البا نی رحمہ اللہ نے بھی عدمِ جہر کا موقف اختیار کیا ہے۔[2] 10۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز‘‘(ص:80)لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو وہی تھا کہ بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے،لیکن کبھی کبھار جہر فرماتے،اس لیے یہ بھی درست ہے،اس پر اگر کوئی عمل کرے تو کوئی حرج نہیں۔[3] 11۔ حضرت العلام حافظ عبداللہ محدث روپڑی اپنی کتاب ’’تعلیم الصلاۃ‘‘(1/ 31)میں لکھتے ہیں:جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ جہر سے پڑھنا بھی درست ہے۔[4] حضرت العلام کے الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ ان کے نزدیک بھی تسمیہ میں اصل اخفا ہی ہے،مگر کبھی کوئی جہر سے بھی پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ 12۔ حضرت مولانا محمد جونا گڑھی تفسیر ابنِ کثیر کے اردو ترجمے میں لکھتے ہیں کہ تسمیہ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں،گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زوردار ہیں۔[5]
Flag Counter