Maktaba Wahhabi

305 - 738
’’وإن کان لا یمکن الفصل إلا بمشقۃ کالضاد مع الظاء،والصاد مع السین،والطاء مع التاء،اختلف المشائخ فیہ،قال أکثرہم:لا تفسد صلَاتہ‘‘ ’’اگر دو حرفوں میں فرق کرنا مشکل ہے،جیسے ’’ض‘‘ اور ’’ظ‘‘ میں اور ’’ص‘‘ اور ’’س‘‘ میں اور ’’ط‘‘ اور ’’ت‘‘ میں تو ایسے دو حرفوں کے آپس میں بدل جانے سے اکثر فقہا کے نزدیک نماز نہیں ٹوٹتی۔‘‘ نہر الفائق،فتاویٰ تاتارخانیہ،فتاویٰ نقشبندیہ،خزانۃ المفتین،فتاویٰ کبیری،شرح دُرِ مختار اور فتح القدیر اور مفتاح الصلاۃ وغیرہ کتب فقہ میں ایسی صورت میں عدم فسادِ نماز کا فتویٰ موجود ہے۔فتاویٰ عالمگیری میں اسی کو اعدل الاقاویل اور مختار مذہب قرار دیا ہے۔قاضی ابو الحسن اور قاضی ابو عاصم وغیرہ مشائخ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔فتاویٰ بزازیہ میں ہے: ’’فإن قرأ غیر المغضوب بالظاء،والضآلین بالذال،أو الظاء،قیل:لا تفسد بعموم البلوی،فإن العوام لا یعرفون مخارج الحروف،وکثیر من المشائخ أفتوا بہ‘‘ ’’اگر ’’غیر المغضوب‘‘ کو ’’ظ‘‘ سے پڑھا یا ’’الضّالّین‘‘ کو ’’ذال‘‘ سے یا ’’ظ‘‘ سے تو نماز فاسد نہیں ہوتی،کیونکہ عام لوگ حرفوں کے مخرج نہیں پہچانتے۔بہت سے علما نے اسی پر فتویٰ دیا ہے۔‘‘ عتابیہ میں ہے: ’’ومنہم أبو القاسم ومحمد بن مسلمۃ وکثیر من المشائخ أفتوا بہ‘‘ ’’ان علما میں سے ابو القاسم اور محمد بن مسلمہ وغیرہ مشائخ ہیں۔‘‘ شیخ جمال مکی حنفی نے بھی اپنے فتوے میں محمد بن مسلمہ کا قول نقل کیا ہے: ’’قال:لا تفسد،لأنّہ قلّ من یفرّق بینہما‘‘ ’’ض کو ظ پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی،کیونکہ ان میں ہر ایک تمیز نہیں کر سکتا۔‘‘ فتویٰ مکہ مکرمہ میں احمد بن دحلان نے لکھا ہے: ’’ولو أبدل الضاد بغیر ظآء لم تصحّ قراء تہ،قطعًا فعلم من ہذا أنّہ لم
Flag Counter