Maktaba Wahhabi

307 - 738
علامہ موصلی حنبلی شرح شاطبیہ موسوم بہ ’’کنز المعاني شرح حرز الأماني‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’إنّ الضاد والظاء والذال متشابہۃ في السّمع،والضاد لا تفترق عن الظآء إلا بإختلاف المخرج،وزیادۃ الاستطالۃ في الضاد،ولولاہما لکانت إحداہما عین الأخریٰ‘‘ ’’ض‘‘ اور ’’ظ‘‘ اور ’’ذ‘‘ سننے میں باہم متشابہ ہیں۔’’ض‘‘ اور ’’ظ‘‘ میں صرف دو باتوں کافرق ہے،ایک تو اختلافِ مخرج،دوم استطالت۔اگر یہ فرق نہ ہوتا تو دونوں حرف ایک ہو جاتے۔استطالت یہ کہ ’’ض‘‘ کو کھینچ کر پڑھا جاتا ہے،’’ظ‘‘ کو نہیں۔‘‘ فتاویٰ قاضی خان میں ہے: ’’لو قرأ الضّالِّین بِالظاء أو بِالذّال لا تفسد صلَاتُہ و لو قرأ الدّالِّین بالدّال تفسد صلَاتُہ‘‘ یعنی ض کو دواد پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ’’ض‘‘ کو دال مہملہ کے مثل پڑھنا بے اصل،بے ثبوت اور مہمل ہے۔کتب فقہ و تفسیر و تصریف و تجوید و سلوک میں جن کا اسباب میں اعتبار ہے،اس کا وجود و پتا و نشان تک نہیں۔پس جبکہ کتب معتبرہ و مستندہ میں حرفِ دواد کا ذکر و نقل نہیں تو معلوم ہوا کہ یہ معدوم ہے اور اس کے پڑھنے سے نماز میں خلل آتا ہے،جیسے صَالحات کو طَالحات پڑھنا غلط ہے،ایسے ہی ضَالّین کو دوالّین پڑھنا بے اصل اور لغو ہے۔کذا فی ردّ المحتار وعالمگیری۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ ض کو دال مہملہ کے مثل پڑھنا بے اصل اور غلط ہے تو کیوں اپنی نمازوں میں عمداً و قصداً ض کو دال پڑھا جاتا ہے،حالانکہ ض میں اس کے رخوہ ہونے کے سبب انبساط اور کشادگی حاصل ہے اور ض کا مخرج ظ کے قریب ہے۔اس کو دال مہملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ پُر ہے اور دال باریک ہے۔مخرج بھی دونوں کا بعید ہے۔ض اور ظ میں اگر فرق ہوتا اور ان میں تمیز ضروری ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے نے بالخصوص جبکہ عجمی لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے،اس کے بارے میں ضرور سوال واقع ہوتا۔جب اس بارے میں کوئی حکم منقول نہیں تو معلوم ہوا کہ ان دونوں حرفوں میں تمیز کرنے کی ہمیں تکلیف نہیں دی گئی۔علاوہ ازیں جب
Flag Counter