Maktaba Wahhabi

375 - 738
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح السند قرار دیا ہے،اس لیے کہ صحابی کا نام معلوم نہ ہونا مضر نہیں،کیونکہ صحابہ سبھی عدول ہیں،جیسا کہ علماء اصول کا طے شدہ قاعدہ ہے،لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔[1] 4۔ مصنف عبدالرزاق،مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن کبریٰ بیہقی میں عمر بن سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ نے نماز ِجمعہ میں آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی}پڑھی تو ’’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی‘‘ کہا۔[2] 5۔ مصنف عبدالرزاق و ابن ابی شیبہ اور سنن کبریٰ بیہقی میں عبد خیر ہمذانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ نے نماز میں سورۃ الاعلیٰ کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾پڑھی تو ’’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی‘‘ کہا۔[3] ایسے ہی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے بھی آثار مروی ہیں۔ان چاروں صحابہ میں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ مطلقاً ہر موقع پر جواب دینے کے قائل تھے،نماز میں قراء ت ہو یا عام حالت میں اور نماز فرض ہو یا نفل،جبکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہما صرف فرض نمازوں میں قراء ت کے وقت جواب دینے کے قائل تھے۔[4] اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ سورۃ القیامہ کی آخری آیت{اَ لَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی﴾پڑھیں تو ’’سُبْحَانَکَ فَبَلٰی‘‘ کہیں اور جب سورۃ الاعلیٰ کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾پڑھیں تو ’’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰی‘‘ کہیں۔یہ دونوں ثابت ہیں۔امام نووی رحمہ اللہ نے تو فرض و نفل میں بھی فرق نہیں کیا،جبکہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آیتِ رحمت پر طلبِ رحمت،آیتِ عذاب پر طلبِ پناہ اور التجا کے وقت التجا کی تھی،جیسا کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما والی حدیث گزری ہے،وہ نفلی نماز قیام اللیل میں تھی،اور صحیح اتباع کا تقاضا یہ ہے کہ اسے قیاس و رائے سے وسیع کر کے فرائض تک نہ لے جایا جائے،بلکہ صرف نوافل تک ہی رہنے دیا جائے،یا یوں کہہ لیں کہ فرائض میں تو ان آیتوں کا جواب نہ دیں،البتہ غیر فرض نمازوں میں دے لیں۔
Flag Counter