Maktaba Wahhabi

376 - 738
اس بات کے قائلین کا استدلال اس چیز سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل فرض میں ثابت نہیں،صرف غیر فرض میں ثابت ہے اور اگر فرض میں بھی ثابت ہوتا تو ضرور منقول ہوتا۔[1] اور فرض اور غیر فرض کا فرق کیے بغیر ہر نماز میں جواب دینے کے قائلین کی تائید ان آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہوتی ہے جن میں مطلق نماز اور نمازِ جمعہ کا ذکر آیا ہے،جیساکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری،حضرت علی،حضرت عمر اور حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہم کے آثار بھی ہم نے ذکر کیے ہیں۔ 6۔ جس طرح سورۃ القیامہ و اعلیٰ کی آیتوں کا جواب ثابت ہے،اسی طرح سورۃ الرحمن کی آیت﴿فَبِاَیِّ آلآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾کا جواب دینا بھی جائز ہے،کیونکہ سنن ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے پوری سورۃ الرحمن پڑھی اور وہ خاموشی سے سنتے رہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَقَدْ قَرَأْتُہَا عَلَی الْجِنِّ لَیْلَۃَ الْجِنِّ فَکَانُوْا اَحْسَنَ مَرْدُوْدًا مِنْکُمْ،کُنْتُ کُلَّمَا اَتَیْتُ عَلٰی قَوْلِہٖ:﴿فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِقَالُوْا:لاَ شَیْیٌٔ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ))[2] ’’جِنوں کو وعظ والی رات میں نے یہ سورت جِنوں کے سامنے پڑھی تو وہ جواب دینے میں تم سے بہتر تھے۔کیونکہ میں جب بھی اس آیت پر آتا:{فَبِاَیِّ آلآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾(تم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟)تو جن جواب دیتے تھے:’’لاَ شَیْیٌٔ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ‘‘(اے ہمارے ربّ!ہم تیری کسی بھی نعمت کا انکار نہیں کرتے اور ہر قسم کی تعریف تیرے ہی لیے ہے)۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے منکر قرار دیا ہے اور اپنی تائید کے لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ کے اقوال سے استناد کیا ہے۔[3] جبکہ یہ حدیث تفسیر طبری،مسند بزار،تاریخ بغداد(4/301)اور الافراد دارقطنی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے جس کے تمام راوی ثقہ اور بخاری و مسلم میں سے ہیں،سوائے یحییٰ بن سلیم طائفی کے۔ان پر کلام کیا گیا ہے،لیکن بہرحال وہ
Flag Counter