Maktaba Wahhabi

574 - 738
((اِنَّا کُنَّا نَقُوْلُ:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا کَانَ حَیًّا)) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب زندہ تھے تو ہم کہتے تھے:اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ۔‘‘ تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ((ہٰکَذَا عُلِّمْنَاہُ وَہٰکَذَا نُعَلِّمُ))[1] ’’ہمیں ایسے ہی سکھلایا گیا تھا اور ہم بھی آگے ایسے ہی سکھلائیں گے۔‘‘ اس حدیث سے یہ شک پڑتا ہے کہ شاید غائب کے صیغے کا استعمال جائز نہ ہوگا،اسی لیے تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ نے اس روایت میں((اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ))کے بجائے((اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ))ہی سکھلانے کی بات کی ہے،جبکہ درحقیقت ایسی کوئی بات نہیں،کیونکہ صحیح بخاری شریف میں وارد حضرت ابن مسعود رضی اللہ ہی سے غائب کے صیغے سے((اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ))بھی ثابت ہے جو ابو معمر کی روایت ہے اور ابو عبیدہ والی سنن سعید بن منصور کی روایت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی،کیونکہ ابو عبیدہ کا تو اپنے والد گرامی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے سماع ہی ثابت نہیں ہے۔لہٰذا یہ سند ہی اس انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہوئی۔بھلا کوئی ایسی روایت صحیح بخاری کی حدیث کے مقابلہ میں کیسے پیش کی جا سکتی ہے![2] حافظ ابن حجر کی بیان کردہ اس تفصیل کو علامہ قسطلانی و زرقانی اور عبدالحی لکھنؤی جیسے کبار محققین علما نے بھی ذکر کیا ہے اور ان کا کوئی تعاقب نہیں کیا،بلکہ ان کے ساتھ موافقت کی ہے،جس سے ان کے اس کلام کا وزن معلوم ہو جاتا ہے۔[3] حضرت ابن مسعود رضی اللہ کا یہ عمل محض ذاتی اجتہاد نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے توقیف پر مبنی تھا،کیونکہ کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں خود اپنی طرف سے کوئی تصرف کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا،چہ جائیکہ ایسا حضرت ابن مسعود رضی اللہ جیسے قاطع شرکیات و قامع بدعات شخصیت سے سرزد ہو۔سنن دارمی اور دیگر کتب میں ان کا وہ واقعہ معروف ہے کہ جب کچھ لوگوں نے مسجد میں حلقہ بنا کر ایک شخص کی آواز پر سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہنا شروع کر دیا تھا اور ان میں سے ہر شخص کے سامنے کنکریاں رکھی
Flag Counter