Maktaba Wahhabi

575 - 738
تھیں جنھیں وہ گن رہا تھا تو انھوں نے سختی کے ساتھ اس کی تردید فرمائی تھی۔[1] خصوصاً جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ(1/ 294)اور معانی الآثار طحاوی(1/ 157)میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ وہ جب اپنے ساتھیوں کو تشہد سکھلاتے تو ’’الف‘‘ اور ’’واؤ‘‘ تک میں باقاعدہ مواخذہ کرتے تھے۔یعنی باریک باریک چیزوں پر بھی توجہ دیتے کہ زیر کا زبر نہ ہونے پائے۔’’اَلسَّلاَمُ عَلَی النَّبِیّ‘‘ کے تعلیمِ نبوی کا نتیجہ ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مصنف عبدالرزاق میں صحیح سند سے امام عطاء بن ابی رباح سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد((اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ))کہنا شروع کر دیا تھا۔اس کی سند بھی حافظ ابن حجر کے بہ قول صحیح ہے۔علامہ قسطلانی،زرقانی اور عبدالحی لکھنوی نے بھی ان کی تصحیح پر موافقت کی ہے۔[2] اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اثر بھی مصنف ابن ابی شیبہ،مسند سراج اور الفوائد للمخلص میں دو صحیح سندوں سے مروی ہے،جس میں ہے کہ وہ بھی اسی طرح تشہد سکھلایا کرتی تھیں جس میں((اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ))کے الفاظ ہوتے تھے: ((عَنْ عَائِشَۃَ:اَنَّہَا کَانَتْ تُعَلِّمُہُمُ التَّشَہُّدَ فِی الصَّلَاۃِ۔۔۔اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ))[3] ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ(صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین کرام کو)نماز میں تشہد یوں سکھلایا کرتی تھیں:((اَلسَّلاَمُ عَلَی النَّبِیِّ)) یہ آثار بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ عمل توقیف پر مبنی تھا نہ کہ اجتہاد پر۔کیونکہ یہ خالص تعبدی عمل ہے،جس میں اجتہاد کا دخل ہی نہیں ہوتا۔ اسی طرح موطا امام مالک میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے: ((اِنَّہُ کَانَ یَتَشَہَّدُ فَیَقُوْلُ:اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ))[4]
Flag Counter