Maktaba Wahhabi

697 - 738
1۔ پہلا یہ ہے کہ سہو چاہے کیسا بھی ہو،سجدئہ سہو سلام کے بعد ہی کرنا ہوگا۔متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔ان کا استدلال ان احادیث سے ہے،جن میں سلام کے بعد سجدئہ سہو کا ذکر آیا ہے۔ 2۔ اس سلسلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ سجدئہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے ہے۔یہ بھی متعدد صحابہ کرام،اکثر فقہاے مدینہ،علماء حدیث اور امام شافعی کا قول(جدید)ہے۔ان کا استدلال ان احادیث سے ہے،جن میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدئہ سہو کا ذکر آیا ہے۔ 3۔ تیسرا قول یہ ہے کہ جہاں نماز میں کمی ہو،وہاں سلام پھیرنے سے پہلے اور جہاں نماز میں زیادتی ہو وہاں سلام کے بعد سجدئہ سہو کیا جائے گا۔یہ امام مالک،مزنی،ابو ثور اور ایک قول کے مطابق امام شافعی رضی اللہ عنہم کا مسلک ہے۔علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس طرح دونوں قسم کی احادیث پر اُن کے موقع و محل کے مطابق عمل ہو جائے گا اور کسی حدیث کے منسوخ ہونے کے دعوے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔علامہ ابن العربی رحمہ اللہ نے اس مسلک کو بہت سراہا ہے۔ 4۔ اس موضوع میں چوتھا قول یہ ہے کہ جس جس موقع پر سلام سے پہلے یا سلام کے بعد سجدئہ سہو حدیث میں ثابت ہے،وہاں اسی طرح سجدہ کیا جائے گا اور سہو کی جس شکل کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں،وہاں صرف سلام سے پہلے ہی سجدئہ سہو کیا جائے۔یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مسلک ہے۔ 5۔ پانچواں قول یہ ہے کہ جس موقع پر سجدئہ سہو حدیث سے ثابت ہے،وہاں اسی طرح سجدہ کیا جائے گا اور جہاں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے،وہاں نماز میں کمی کے وقت سلام سے پہلے اور زیادتی کے وقت سلام پھیرنے کے بعد سجدئہ سہو کیا جائے گا۔یہ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے۔ 6۔ چھٹا قول یہ ہے کہ نماز میں شک ہو جانے کی شکل میں اگر ظن غالب پر اعتماد کر کے نماز مکمل کر لے تو وہ سلام پھیرنے کے بعد سجدئہ سہو کرے اور اگر اس شکل میں کم مقدار پر بنیاد رکھ کر نماز مکمل کرے تو وہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدئہ سہو کر لے۔یہ امام ابو حاتم ابن حبان رحمہ اللہ کا مسلک ہے۔
Flag Counter