Maktaba Wahhabi

698 - 738
7۔ ساتواں قول یہ ہے کہ بھولنے والے کو اختیار ہے کہ نماز میں کمی ہو یا زیادتی،وہ اپنی مرضی سے چاہے تو سلام سے پہلے سجدئہ سہو کر لے یا بعد میں۔مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک روایت کے مطابق یہ حضرت علی رضی اللہ اور ایک قول کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک ہے۔ 8۔ آٹھواں قول یہ ہے کہ صرف دو شکلوں کے سوا ہر شکل میں سلام پھیرنے کے بعد ہی سجدئہ سہو کیا جائے گا اور اُن دو شکلوں میں نمازی کو سلام سے پہلے یا بعد سجدئہ سہو کا اختیار ہے۔پہلی شکل وہ ہے جب نمازی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھے بغیر ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے اور دوسری شکل وہ ہے جب نمازی کو رکعتوں کی تعداد میں شک ہو جائے۔یہ ظاہریہ اور علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کا مسلک ہے۔ 9۔ سجدئہ سہو کے مقام و موقع کی تعیین کے سلسلے میں معروف محقق و مجتہد امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سب سے عمدہ بات تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے تقاضے کے مطابق ہی سلام سے پہلے یا بعد میں سجدئہ سہو کیا جائے۔جن شکلوں میں سلام سے پہلے سجدئہ سہو کرنے کی قید ہے،وہاں پہلے اور جہاں بعد کی ہے وہاں بعد میں کیا جائے۔جہاں ایسی کوئی قید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل سے ثابت نہیں،وہاں کمی یا زیادتی ہر شکل میں نمازی کو اختیار ہے کہ پہلے کرے یا بعد میں،کیونکہ صحیح مسلم شریف میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مطلق ہے: ((اِذَا زَادَ الرَّجُلُ اَوْ نَقَصَ فَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ))[1] ’’جب انسان اپنی نماز میں کمی یا زیادتی کر جائے تو اسے چاہیے کہ سہو کے دو سجدے کر لے۔‘‘ 10۔ المرعاۃ شرح المشکاۃ میں امام ابو داود ظاہری کا مسلک یہ لکھا گیا ہے کہ سجدئہ سہو صرف انہی چند شکلوں میں ہے جن میں احادیث سے ثابت ہے،دیگر کسی بھول پر سجدئہ سہو نہیں۔علامہ عبیداللہ رحمانی نے سب سے راجح مسلک یہ قرار دیا ہے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ کر لے یا بعد میں۔ بہرحال یہ سب اقوال محض اوّلیت و افضلیت کے بارے میں ہیں،البتہ جواز کی حد تک اس بات پر سب ائمہ کا اتفاق ہے کہ سجدئہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کر لے یا بعد میں۔[2]
Flag Counter