Maktaba Wahhabi

95 - 738
((لِمَ تَصْنَعُ ہٰذَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟وَقَدْ غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ!)) ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دیے ہیں!‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَفَلَا اُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا؟))[1] ’’تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں؟‘‘ جبکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ سے بھی مروی ہے: ((قَامَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم حَتّٰی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ)) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمِ مبارک سوج جاتے۔‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو سابقہ اور آیندہ تمام گناہ بخش دیے گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا؟))[2] ’’کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل مبارک اُن محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باعثِ عبرت ہے جو تندرست و توانا ہوتے ہوئے اور کسی قسم کی تھکاوٹ کا بھی نشان تک نہ ہونے کے باوجود جب نفلی رکعتیں پڑھنے کی باری آتی ہے تو بیٹھ جاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض اوقات نفلی نمازیں بیٹھ کر پڑھنا ثابت ہے،مگر یاد رہے کہ وہ سراسر بلا عذر بھی نہیں ہوتا تھا،بلکہ طولِ قیام سے پیدا ہونے والی تھکاوٹ اور جسم مبارک کے کچھ بوجھل ہو جانے اور کمزوری پیدا ہو جانے کی وجہ سے ہوتا تھا،جیسا کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے،جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے،اس کے آخر میں اُن کے اپنے الفاظ میں یہ وضاحت بھی موجود ہے:
Flag Counter