Maktaba Wahhabi

140 - 924
شادی آپ کے گاؤں منصورپور میں ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اپنی پہلی بیوی کو آپ نے طلاق دے دی تھی۔ بعد ازاں آپ نے دوسری شادی…… بی بی سے کی، لیکن اس شادی سے آپ کے ہاں کوئی اولاد نہ پیدا ہوئی۔ بہاولنگر میں شادی کردہ…… نامی بیٹی درحقیقت آپ کی لے پالک بیٹی ہے۔ اولادِ نرینہ کی حسرت آپ کی دوسری شادی سے بھی پوری نہ ہوئی۔ یہ ریکارڈ کی درستی اس لیے ضروری گردانی گئی ہے کہ مضمون کے آغاز پر ذکر کردہ مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ بھی اولادِ نرینہ سے محروم تھے۔ انھوں نے اپنے بڑے بھائی مولانا محمد علی مسلم چیمہ رحمہ اللہ سے ان کا حامد نامی بیٹا گود لے لیا۔ بعد ازاں محمد اسحاق چیمہ صاحب کے اس لے پالک بیٹے کا عرصۂ دراز تک اپنے حقیقی باپ محمد علی مسلم صاحب سے وراثتی کیس عدالتوں میں جاری رہا۔ کیس یہ تھا کہ محمد علی مسلم مدعی تھے، میرا حقیقی بھائی محمد اسحاق لا ولد فوت ہوا ہے، اس کی وراثت میں میرا بھی حصہ ہے اور ڈاکٹر حامد(حال مقیم آسٹریلیا)دعوے دار تھے کہ میں محمد اسحاق صاحب کا بیٹا ہوں ، لہٰذا ساری وراثت کا میں حق دار ہوں ۔ لے پالک کو بیٹا قرار دینے کا یہ نتیجہ تھا، جو جگ ہنسائی کا باعث بنا کہ باپ کہتا ہے کہ توں میرا حقیقی بیٹا ہے اور بیٹا کہتا ہے کہ آپ میرے حقیقی باپ نہیں ۔ دینِ اسلام ایک حق بیاں دین ہے، جو لے پالک بیٹے یا بیٹی کو کسی طور حقیقی بیٹا یا بیٹی تسلیم نہیں کرتا۔ ﴿ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللّٰهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ * ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ [الأحزاب: ۴۔ ۵] ’’اور نہ تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارے بیٹے بنایا ہے، یہ تمھارا اپنے مونہوں سے کہنا ہے اور اللہ سچ کہتا ہے اور وہی(سیدھا)راستہ دکھاتا ہے۔ انھیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے۔۔۔۔‘‘ یہ کیسا حسنِ اتفاق ہے کہ جناب بھٹی صاحب سے اپنے دیرینہ تعلق بارے عدمِ ریکارڈ اور کمزور یادداشت پر بھرپور اعتماد نہ ہونے کے سبب بہ مشکل قلم کو آمادۂ تحریر کیا، لیکن نوکِ قلم پر آغاز کے بعد اختتام بھی آپ کے زندہ دل ہم نام دوست مولانا محمد اسحاق چیمہ کا ذکرِ خیر آن ٹھہرا۔ یوں غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر ہر دو محترم ہستیوں کا محبت و مودت اور احترام و اکرام کا باہمی تعلق ان صفحات تک چلا آیا ہے۔ مزید براں ہر دو کی لے پالک بیٹے اور بیٹی کی خدائی آزمایش اور ذاتی انتساب کا معاملہ بھی ایک جیسا ہے کہ اپنے لے پالک کو اپنی طرف منسوب کرتے تھے۔ جس ریکارڈ کی درستی میں بھی توافق و توارد در آیا ہے۔ یہ ریکارڈ کی تصحیح کی ضرورت ہر دو محترم شخصیات کے ساتھ راقم السطور کی عقیدت و محبت کہیے یا حسنِ اتفاق۔
Flag Counter