Maktaba Wahhabi

503 - 924
کا انھوں نے بعض حضرات سے شکوہ بھی کیا۔ پنجابی پروگرام ’’سوہنی دھرتی‘‘ میں بھی کچھ عرصے تک کام کرتا رہا۔ میں اس پروگرام میں پڑھے لکھے شخص کا کردار ادا کرتا تھا اور میرا ریڈیائی نام ’’میاں صاحب‘‘ رکھا گیا تھا۔ ٹیلی ویژن پر مجھے پہلی مرتبہ ۲۷؍ جولائی ۱۹۷۲ء کو بلایا گیا اور ’’بصیرت‘‘ پروگرام دیا گیا۔ موضوع تھا: قرآن کی آیت: ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ﴾ [آلِ عمران: ۹۲] یہ پروگرام ریکارڈ کرانا تھا۔ اور بھی کئی مقررین تھے، لیکن پہلی ریکارڈنگ میری تقریر کی تھی۔ یہ پانچ منٹ کا پروگرام تھا۔ ریڈیو پر تقریر کا اور انداز ہے، ٹیلی ویژن پر اور۔ ٹیلی ویژن پر روشنیوں کا ایک سیلاب آیا ہوتا ہے اور مقرر کے اردگرد عملے کے بہت سے لوگ کھڑے ہوتے ہیں ، جو مقرر کی ہر حرکت پر نگاہ رکھتے ہیں ۔ اس ماحول اور فضا میں مقرر بسا اوقات پریشان ہو جاتا ہے۔ میں ریکارڈنگ سے فارغ ہو کر کمرے سے باہر نکلا تو سب سے پہلے مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ میری طرف بڑھے، انھوں نے معانقہ کیا اور مبارک باد دی، جس سے میرا حوصلہ بڑھا۔ ان کے بعد میرے ایک شیعہ دوست جو مشہور عالم اور مقرر تھے، تیزی کے ساتھ میری طرف آئے اور کہا: ’’بھٹی صاحب قسم حسین کی! آپ نے بہت اچھی تقریر کی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رکھیں ۔‘‘ بہرحال میں ریڈیوپر ۳۴ برس مختلف پروگرام کرتا رہا۔ بعض دفعہ ایک دن میں دو دو، تین تین پروگرام بھی کیے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن پر کافی عرصہ میرے پروگراموں کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر ایک وقت آیا کہ میں نے ریڈیو والوں سے بھی معذرت کرلی اور ٹیلی ویژن والوں سے بھی۔۔۔! ’’قصوری خاندان‘‘ لکھنے کا پسِ منظر: سوال: آپ نے بتایا کہ میاں محمود علی قصوری رحمہ اللہ نے آپ سے اپنے بزرگوں کے حالات لکھنے کے لیے کہا، لیکن آپ نہ لکھ سکے۔ حالاں کہ آپ نے ’’قصوری خاندان‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے، اس کا پسِ منظر کیا ہے؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: میاں محمود علی قصوری رحمہ اللہ نے ۱۳؍ اگست ۱۹۸۷ء کو وفات پائی اور یہ کتاب میں نے ان کی وفات سے ساڑھے چھے سال بعد دسمبر ۱۹۹۳ء میں لکھی۔ مولانا محی الدین احمد قصوری رحمہ اللہ کے بیٹے اور میاں محمود علی قصوری رحمہ اللہ کے بھتیجے معین قریشی کو ۱۸؍ جولائی ۱۹۹۳ء کو امریکہ سے بلا کر نوے(۹۰)دن کے لیے پاکستان کا نگران وزیر اعظم بنایا گیا تھا، وہ انتخابات کے بعد نئی حکومت بنا کر واپس امریکہ چلے گئے تھے۔ اس سے ڈیڑھ ماہ بعد کی بات ہے کہ فرید کوٹ کے ہمارے ایک دوست فوت ہوگئے۔ ان کے جنازے کے موقع پر ایک پڑھے لکھے شخص نے اہانت آمیز لہجے میں کہا کہ معین قریشی جسے نگران وزیر اعظم بنایا گیا تھا، انجمنِ حمایتِ اسلام کے سابق صدر مولوی غلام محی الدین قصوری کا بیٹا ہے۔ میں نے کہا: یہ مولوی غلام محی الدین قصوری کے بیٹے نہیں ، بلکہ محی الدین احمد قصوری رحمہ اللہ کے بیٹے، میاں محمود علی قصوری رحمہ اللہ کے بھتیجے اور مولانا عبدالقادر قصوری رحمہ اللہ کے پوتے ہیں ۔ لیکن وہ میری
Flag Counter