Maktaba Wahhabi

348 - 924
مورخِ اہلِ حدیث، مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے یاگار ملاقات! تحریر: جناب سیف اللہ مغل۔ حافظ آباد اللہ کریم نے مولانا محمد اسحاق بھٹی مرحوم و مغفور کو بے پناہ اوصاف سے نوازہ تھا۔ قوتِ حافظہ، وسعتِ نظر، روا داری، علمی وسعت، تاریخ پر گہری نظر اور حالات و واقعات سے آگاہی حاصل کرنے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ان سے براہِ راست تعلق تو شاید بہت زیادہ لوگوں کا نہ ہو، لیکن ان کی کتب میں شخصیات کی خاکہ نگاری کے حوالے سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورا ایشیا، یورپ، افریقہ اور عرب ممالک میں اردو دان طبقہ آپ کی کتب کی وجہ سے آپ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے خود نوشت سوانح حیات ’’گزر گئی گزران‘‘ کے نام سے تصنیف فرمائی، جس میں اپنے بچپن سے لے کر پیرانہ سالی تک کے تمام حالات و واقعات لکھے۔ مجھے ان سے شناسائی اور آگاہی تو ان کی شخصیت نگاری کی کتب ’’بزمِ ارجمنداں ، کاروانِ سلف، نقوشِ عظمتِ رفتہ اور ہفت اقلیم‘‘ کا مطالعہ کرنے سے ہوئی۔ پھر اللہ نے مجھے بھی اپنے اسلاف کے حالات زندگی پر قلم اٹھانے کی سعادت عطا کی اور میں نے ’’گلشنِ توحید و سنت‘‘ کے نام سے ضلع حافظ آباد کے علمائے اہلِ حدیث کی دینی خدمات کے حوالے سے چالیس(۴۰)محسنینِ قرآن و سنت کے حالاتِ زندگی قلم بند کیے۔ اس کتاب کا نام رکھنے کے حوالے سے میں نے محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے فون پر مشورہ کیا تو انھوں نے یہ نام ’’گلشنِ توحید و سنت‘‘ پسند کیا اور میری کوشش کو بہت سراہا۔ میں یہ کتاب لے کر خود ان کے درِ دولت پر حاضر ہوا، بڑے تپاک سے ملے، ان کے چھوٹے بھائی سعید احمد بھٹی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ کتاب آپ سہ ماہی ’’نقطہ نظر‘‘ کو بھیجیں ، وہ اس پر تبصرہ لکھیں گے۔ میں نے دو کتابیں ان کو ارسال کیں تو انھوں نے بڑا مفصل تبصرہ شائع کیا اور کتاب کو مزید بہتر بنانے کے لیے قیمتی مشوروں سے نوازا۔ اللہ تعالی محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے اور آخرت میں ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین ان کی وفات سے ایک ماہ پہلے مورخہ ۲۵؍ نومبر ۲۰۱۵ء کو، میں لاہور گیا تو اس بات کا عزم کیا کہ مورخِ اہلِ حدیث کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں گا۔ میں نے اپنی آمد کی اطلاع فون پر انھیں دے دی تھی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ
Flag Counter