Maktaba Wahhabi

349 - 924
بڑے تپاک سے ملے، مہمان کے استقبال میں انھوں نے بڑی گرم جوشی کا اظہار کیا۔ وہ میرے ساتھ والے صوفے پر تشریف فرما ہوئے تو میرے لیے یہ انتہائی مسرت کے لمحات تھے کہ مجھے مورخِ اہلِ حدیث اور برصغیر میں اہلِ حدیث کی ۱۰۰ سالہ تاریخ کی شناسا ہستی کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے جلدی سے اپنا موبائل نکالا اور آپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کرنے کے لیے درمیان میں رکھ دیا۔ اس گفتگو کے دوران میں انھوں نے بتایا کہ برصغیر میں جتنے بھی قرآن کے تراجم مختلف زبانوں میں شائع ہوئے ہیں ، اللہ کے فضل سے وہ سب میرے پاس ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے تو اپنی کتب میں بلا تفریقِ مسلک سب شخصیات پر دل کھول کر لکھا ہے اور ان کے اوصاف کو خوبصورت الفاظ میں ڈھالا ہے، کیا کسی دیوبندی، بریلوی یا شیعہ نے بھی علمائے اہلِ حدیث کی حیات اور دینی خدمات پر کچھ تحریر کیا ہے؟ تو فرمانے لگے کہ میرے علم میں تو ایسی کوئی کتاب سا منے نہیں آئی۔ انھوں نے اس بات پر سخت غم اور صدمے کا اظہار کیا کہ کتاب و سنت کے حاملین کتنی جماعتوں میں تقسیم ہیں اور چھوٹی چھوٹی سی ذاتی ناراضیاں چالیس پچاس سالوں میں بھی ختم ہونے میں نہیں آتیں ۔ اگر اہلِ حق آپس میں اکٹھے نہیں ہوں گے تو حق کے فروغ کے لیے کیسے جدوجہد کریں گے؟ پھر فرمانے لگے کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہt نے کیسے چھے ہزار کے قریب احادیث کو یاد کر لیا اور آگے نقل کر دیا، جبکہ وہ تو صحبت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں صرف تین سال رہے ہیں ؟ اگر ان کی زندگی کے ایامِ صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تقسیم کریں تو پانچ چھے احادیث روزانہ بنتی ہیں اور کیا ایک شخص روزانہ پانچ چھے احادیث یاد نہیں کر سکتا؟‘‘ ان کی گفتگو بڑی پرلطف تھی اور ہر ہر سوال کا جواب وہ بڑی خوشی کے ساتھ دیتے جاتے تھے۔ دورانِ گفتگو سندھ کی ایک شخصیت کا تذکرہ آگیا، جنھوں نے قرآنِ پاک کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور مزید کوئی تیس کے قریب کتابوں کو سندھی سے اردو میں منتقل کیا ہے، تو میں نے کہا کہ مجھے ایک صاحب نے ان کے متعلق کہا کہ وہ عالم نہیں ہیں تو مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ ’’صرف عالم ہونا کیا اہمیت رکھتا ہے کہ کوئی دینی خدمت سرانجام نہ دے سکے، وہ شخص تو کئی علما سے بدرجہا بہتر ہے، جس نے اتنی تحریری خدمات سر انجام دی ہیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ میں میر پور خاص سندھ گیا تو وہاں ملکانی کے مولانا محمد خان محمدی حفظہ اللہ سے ملاقات ہوئی تھی، ان کے پاس آپ کی تمام کتابیں موجود تھیں ، بلکہ قابلِ رشک بہت بڑی لائبریری بھی تھی۔ تو فرمانے لگے کہ وہ میرا بڑا دوست ہے اور مجھے کئی بار ملنے بھی آیا ہے، اب کافی عرصہ ہوگیا، ملنے نہیں آیا۔ اتنے میں ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا تو نیچے بیٹھک ہی میں نماز پڑھنے کا اہتمام کر دیا گیا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے مجھے نماز پڑھانے کا فرمایا تو میں نے دو رکعت قصر نماز ادا کی، انھوں نے بیٹھ کر اپنی بقیہ دو رکعات مکمل کیں ۔ پھر دستر خوان بچھا دیا گیا اور مجھے آپ رحمہ اللہ
Flag Counter