Maktaba Wahhabi

184 - 924
علم کا پہاڑ ۔۔۔ انکسار کا پیکر تحریر: جناب رانا شفیق خاں پسروری۔ لاہور لوگوں نے کسی پہاڑ کو لوگوں کے ہاتھوں پر رواں نہیں دیکھا ہوگا، مگر میں نے آج ایک پہاڑ کو روتے اور ہچکیاں لیتے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں پر سفر کرتے دیکھا ہے۔ میں نے اوروں کی طرح خود بھی اُس کے جنازے کو کندھا دیا ہے۔ وہ پہاڑ، ایک نحیف و منحنی سے شخص کی صورت میں تھا، دیکھنے کو ایک دُبلا پتلا، کمزور سا شخص، مگر اپنی ذات و صفات میں پہاڑوں سے بلند قد و قامت کا مالک۔۔۔ بلا مبالغہ اور حقیقتاً، علم کا پہاڑ، عمل و کردار کا پیکرِ عظیم، عجز و انکسار کا حقیقی مظہر، بے غرضی و بے لوثی سے مجسم وہ رجلِ عظیم کہ جس کو دنیا ’’مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘کے نام سے جانتی ہے(اور اب ہمیشہ یاد کرتی رہے گی)۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے نوے سال کی ایک لمبی زندگی بسر کی، مگر زندگی مسلسل ’’ہر لحظہ نیا طور، نئی برق تجلّی‘‘ کی مصداق رہی ہے۔ آخر دم تک، ان کا تعلق قلم و قرطاس سے قائم رہا۔ ان کے عزیز اور احباب، ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے انھیں آرام کی تلقین و اصرار کرتے رہے، مگر وہ پارہ صفت تھے اور زندگی کے ہر لمحے سے کچھ نہ کچھ کشید کرتے رہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ایک نوے سالہ بوڑھے کا وجود، جوانوں سے زیادہ متحرک اور دماغ، کم سنوں سے بڑھ کر قوتِ حافظہ سے لبریز و معمور تھا۔۔۔ وہ کثیر التصانیف بھی تھے، کثیر المجالس بھی۔ عام طور پر لکھنے والے مردم بے زار ہوتے ہیں ، تنہائی کو اپنے کام میں ممد و معاون جانتے اور لوگوں سے میل ملاپ سے احتراز کرتے ہیں ، مگر بھٹی صاحب رحمہ اللہ ایک مجلسی آدمی تھے۔ یار باش، دوستی پالنے اور دوستی سنبھالنے والے۔ کوئی ان کو ملنے جاتا تو بانہیں اور دل کھول کر ملتے۔ کسی کو اجنبیت کا احساس تک نہ ہونے دیتے، ہر ایک کی ذہنی سطح تک آکر ملتے کہ زندگی بھر کے لیے اپنا نقش چھوڑ جاتے۔ ملنے والا خود اجازت مانگ کر اٹھتا۔ دل کھول کر باتیں کرنے والے اور پوری طرح متوجہ ہو کر سننے والے بھٹی صاحب رحمہ اللہ لکھتے بھی بہت زیادہ تھے، اتنا لکھتے تھے کہ کتاب پر کتاب شائع ہوتی چلی جاتی تھی۔ ان کو ملنے والے حیران ہوتے تھے، ’’یہ مجلسی آدمی لکھتا کس وقت ہو گا کہ اس کمال کا لکھ گیا۔‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے تفسیر و حدیث، فقہ و سیرت، تاریخ و ادب پر بھی خوب لکھا، مگر ان کو جو شہرتِ دوام ملی، وہ ان کو ’’خاکہ نویسی‘‘ کے حوالے سے ملی، گویا وہ اِس فن کے ’’امام‘‘ تھے۔ شخصیات پر انھوں نے جتنا زیادہ لکھا اور جس قدر لکھا برصغیر کی تاریخ میں کسی اور نے کہاں لکھا ہوگا، ان کے کام کی کثرت و ندرت کے باعث ہی تو انھیں
Flag Counter