Maktaba Wahhabi

142 - 924
کی بنا پر نہیں فرماتے تھے، بلکہ اس کی وجہ ان کی میرے والد صاحب رحمہ اللہ اور دیگر خاندانی بزرگوں سے روحانی و دینی وابستگی اور عقیدت مندانہ مراسم کی پون صدی پر مشتمل تاریخ تھی۔ گویا محترم اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہماری خاندانی تاریخ کے محض عینی شاہد ہی نہیں ، بلکہ وہ روحانی کیفیات، قلبی احساسات، اخلاقی روایات اور معاشرتی تعلقات کے امین بھی تھے۔ خاندانِ لکھویہ سے متعلق ان کی کتب کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے، جس کو ہر وہ شخص واضح طور پر محسوس کر سکتا ہے جو ان کیفیتوں کا شناسا اور ان لذتوں سے آشنا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو تاریخ نویسی اور خاکہ نگاری کا وہ خاص ملکہ عطا فرمایا تھا، جو صدیوں اور دہائیوں میں بھی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ویسے تو وہ عالمِ دین تھے اور علومِ شرعیہ کے جملہ پہلوؤں پر گہری نگاہ رکھتے تھے، لیکن انھوں نے تحریر و تصنیف کے لیے زیادہ تر علما کی تاریخ و حالات کو موضوع بنایا۔ اس میدان میں ان کی تین درجن کے قریب کتابیں شائع ہو چکی ہیں ، جن کی قبولیتِ عامہ اللہ کے فضل سے اس قدر ہے کہ مسلسل اشاعت کے باوجود مکمل سیٹ شاذ و نادر ہی دستیاب ہوتا ہے۔ مصنف محترم رحمہ اللہ کے قلم سے مختلف رسائل و جرائد اور انسائیکلو پیڈیا وغیرہ میں شائع شدہ مضامین و مقالات کی ایک کثیر تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ان کے اندازِ تاریخ نویسی اور اسلوبِ خاکہ نگاری کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور شعبہ اسلامیات میں ایم فل کی سطح کے تحقیقی مقالات بھی لکھے جا چکے ہیں ۔ پاکستان، کویت اور دیگر ممالک کے علما کی طرف سے شیخِ محترم اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ میرے خیال سے وہ ’’مورخِ اسلام‘‘ تھے، کیوں کہ انھوں نے صرف علمائے اہلِ حدیث کی تاریخ ہی کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ برصغیر کے ان تمام علما کے حالات کا احاطہ کیا ہے، جن کے ساتھ ان کا کسی بھی طور سے کوئی تعلق رہا، یا ان کا کوئی تاریخی واقعہ یا شخصی خاکہ محترم بھٹی صاحب کی یادداشت میں محفوظ رہا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی یادداشت اور حافظہ بھی ماشاء اللہ غیر معمولی تھا، محض اپنی ذاتی زندگی کے واقعات ہی نہیں ، بلکہ دوسروں کی زندگی کے حالات و واقعات بھی دنوں اور تاریخوں کی تعیین کے ساتھ ان کو آخری عمر تک یاد تھے، جبکہ ان کی عمر نوے برس سے تجاوز کر چکی تھی۔ یعنی اس بڑھاپے میں بھی ماشاء اللہ ان کا حافظہ ’’جوان‘‘ اور قلم توانا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی انھوں نے قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ ٹوٹنے نہیں دیا۔ ان کی آخری کتابوں میں والدِ گرامی کے حالاتِ زندگی پر مشتمل ایک کتاب ’’تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ ‘‘بھی ہے، جس میں والد صاحب رحمہ اللہ کے تذکرے کے ساتھ ساتھ خاندان کی تاریخ بھی اس طرح مرتب کر دی ہے کہ بہت سے واقعات ہمارے خاندانی بزرگوں کی یادداشت سے بھی محو ہو چکے ہیں ۔ یہ ہمارے خاندان کے ساتھ ان کی وابستگی کی ایک روشن تاریخ ہے۔ اللہ تعالیٰ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطافرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے ساتھ ہم سب کو جنت الفردوس میں اکٹھا فرمائے۔ آمین
Flag Counter