Maktaba Wahhabi

155 - 924
حاصل کرنے میں جو انھوں نے بے پناہ مصائب برداشت کیے، ان کا ہم جیسے لوگ تصور تک نہیں کر سکتے، ان مرحومین کے لواحقین کی عدم دلچسپی اور بے اعتنائی کو برداشت کرنا اس قدر جان گسل مراحل تھے کہ بڑے بڑے با عزم لوگ بھی مایوس ہو جاتے ہیں ، مگر مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے ایک ایک بات کے حصول کے لیے بے حد محنت کی، وہ خون پسینہ ایک کر کے مواد حاصل کرتے تھے۔ وہ محنت کے عادی، جادۂ حق پر چلنے والے ایسے مسافر تھے کہ زندگی کی پر خار وادیوں کی صعوبتیں اور طویل مسافتیں کبھی ان کے حوصلہ و عزم کو شکست نہ دے سکیں ۔ مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں مختصراً مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے اب تک جو کام کیا وہ کچھ اس نوعیت کا تھا۔ تصانیف و تالیفات، تراجم، اخباری مضامین، اخباری اداریے، مقالات و مضامین، محققانہ وعلمی شذرات، کتابوں پر جاندار تبصرے، بہت ساری کتب پر بے بہا مقدمات اور دیباچے۔ ان کے علاوہ ۳۵ سال تک ریڈیو اور ٹی وی پر ان کی بے شمار علمی، ادبی، اصلاحی بصیرت افروز تقاریر خصوصاً پیغام ٹی وی کو طویل تر دیے ہوئے انٹر ویوز وغیرہ علمی دنیا میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ آپ رحمہ اللہ نے ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں خاکہ نویسی کا بھی باقاعدہ مقبول سلسلہ جاری رکھا۔ ؎ مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا مولانا بھٹی رحمہ اللہ کے قریبی احباب جانتے ہیں کہ آپ کے چہرے پر اطمینان و شادابی، لبوں پر دلفریب مسکراہٹ، لہجے میں شیرینی، الفاظ میں شائستگی و وقار، آپ مجسمہ شفقت و محبت تھے۔وہ پوری جماعت اہلِ حدیث کے لیے سایہ دار سائبان تھے، ان کا تجربہ، مطالعہ و مشاہدہ غیر معمولی اور بے انتہا وسیع تھا، آپ ہر کسی سے تواضع و انکساری سے پیش آتے، اور تو اور وہ ہم جیسے چھوٹوں پر بھی بے انتہا مشفق و مہربان نظر آتے تھے، آپ علم کے قدر دان تھے۔ خصوصاً وہ علمائے روپڑی، لکھوی، غزنوی اور راشدیؔ خاندان کے علم و دانش اور زہد و تقویٰ کے قائل تھے۔ خاک میں کیا کیا صورتیں پنہاں ہو گئیں مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات کے بعد دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جب ان کا جنازہ اٹھا تو محاورتاً نہیں ، بلکہ حقیقتاً تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ لوگوں کی بے پناہ محبت کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اللہ والوں کی قدر و منزلت، ان کی محنت، خلوص، پاکیزہ نیت، تقویٰ، کارہائے نمایاں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ورنہ کسی فقیر کی ہمیشہ رخصتی کے بعد کسی نے ان سے کیا لینا دینا ہوتا ہے۔ نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کا پُر ہونا ناممکن ہے۔ اس قحط الرجال کے دور میں ہمارے لیے یہ امر بھی ضروری ہو گیا ہے کہ ہم میں سے جتنے اہلِ علم، اہلِ قلم،
Flag Counter