Maktaba Wahhabi

163 - 924
یہ سن کر میں ان کی یادداشت پر حیران رہ گیا۔ اس کے بعد سالانہ چھٹیوں میں ان کی زیارت کے لیے جانا معمول بن گیا۔ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کے دفتر میں ملاقات ہوتی، گھنٹوں ان کی وسعتِ معلومات سے استفادہ کرتا۔ یہ محبت اپنائیت میں ڈھل گئی۔ ان کی شفقت و محبت میں اس قدر کشش تھی کہ لاہور جانا ہوتا تو بھٹی صاحب سے ملاقات کے بغیر تشنگی محسوس ہوتی۔ پھر گاہے بہ گاہے ٹیلیفون پر گفتگو ہوتی رہتی۔ فیصل آباد میں ان کے خصوصی عقیدت مند مولانا محمد رمضان یوسف سلفی کے ذریعے حال و احوال دریافت کرتے رہتے۔ چند ماہ ہوئے لاہور میں ان کے دولت کدہ پر حاضری دی، پرتپاک انداز میں ملے۔ اتفاق سے جامعہ سلفیہ کے مدرس مولانا فاروق الرحمن یزدانی بھی اس دن ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے، ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: ’’اب چنیوٹی صاحب ڈاکٹر بن گئے ہیں ، اس لیے ملاقات کم ہو گئی ہے۔‘‘ سر راہ یہ بات بھی ذکر کرتا چلوں کہ جب خاکسار کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو اخبار کے ذریعے علم ہوا۔ آپ نے مبارکباد کا خط تحریر کیا، اس سے قبل بھی ایک دو مواقع پر باقاعدہ خط لکھے اور خوشی و مسرت کے کلمات سے نوازا۔ یہ ان کی شفقت، اپنائیت اور محبت تھی جو دوستوں کے لیے باعث کشش تھی۔ دوستوں سے مسلسل رابطہ، خبر گیری اور سرپرستی کا انداز انوکھا تھا۔ راقم نے شیخ الحدیث مولانا عبداللہ ویرووالوی رحمہ اللہ کی سوانح پر کتاب لکھی تو آپ نے مفصل پیش لفظ تحریر فرمائے، پھر راقم نے ’’سفر نامہ حجاز‘‘ طبع کیا تو ’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے راہنمائی اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ بندہ نے اسی ملاقات میں انھیں فیصل آباد آنے کی دعوت دی اور عرض کیاکہ علی ارشد مرحوم کے دور میں آپ کا ہر سال فیصل آباد کا دورہ ہوتا تھا تو اب اسے دوبارہ بحال کریں ، چنانچہ بھٹی صاحب نے دسمبر ۲۰۱۵ء میں آنے کا وعدہ فرمایا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ۱۹؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو جڑانوالا اپنے قریبی عزیز کی نمازِ جنازہ کے لیے جانا ہوا۔ ابھی جنازہ سے فارغ ہوا تھا کہ ایک پرانے شاگرد حافظ علی عمران ملنے کے لیے آئے اور بتایا کہ میں چک ڈھیسیاں ایک جنازے میں شرکت کے لیے جا رہا ہوں ۔ ’’ڈھیسیاں ‘‘ کا نام سنتے ہی میں نے کہا کہ وہ تو میرے مربی بزرگ کا گاؤں ہے۔ جی چاہتا ہے اسے دیکھ کر آؤں ۔ پروگرام بن گیا مگر معاً سوچا کہ حضرت جی اسحاق بھٹی صاحب کے ساتھ ہی گاؤں کا دورہ کروں گا، مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء فجر کے وقت رمضان یوسف سلفی صاحب کا غیر متوقع ٹیلیفون آیا تو فوراً ذہن اس طرف گیاکہ خبر بھٹی صاحب کی آمد سے متعلق ہے، لیکن جوں ہی انھوں نے بتایا کہ مولانا اسحاق بھٹی صاحب ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ہیں تو یہ خبر سنتے ہی سکتے میں آگیا۔ چنانچہ اسی شام فیصل آباد سے چک ڈھیسیاں کے لیے روانہ ہوا۔ جڑانوالہ روڈ پر لاہور سے بھٹی صاحب کی میت لے کر ایمبولینس گاڑی کھڑی تھی، ان کے برادرِ اصغر سعید احمدبھٹی صاحب ساتھ تھے۔ چنانچہ اسی ایمبولینس میں سوار ہو کر میت کے ساتھ چک ڈھیسیاں پہنچا۔ راستے میں ان کے چہرے کا دیدار کیا تو معلوم ہو رہا تھا کہ حسبِ عادت مسکراتے ہوئے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے ہیں ۔ امید ہے کہ اس خادمِ اسلام اور محبِ اسلاف کے لیے یہ پیغام ضرور آیا ہوگا: ﴿ يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ* ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً ﴾ [الفجر: ۲۷۔ ۲۸]
Flag Counter