Maktaba Wahhabi

176 - 924
مظاہرہ کیا ہے۔ آپ یہ سارا کام محض علمی خدمت اور ادائے امانت کے جذبے سے کرتے رہے۔ آپ ﴿لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴾ [الدھر: ۹] کے مصداق اپنی ان خدمات کے صلے میں کسی سے مدح و توصیف کے خواہاں نہیں رہے۔ بس یہ آپ کا ایک مشن اور لگن تھی، جس کی تکمیل آخر دم تک جاری رکھی۔ عام طور پر جب کوئی شخصیت اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے تو اس کے جانے کے بعد اس کی خدمات کا خوب اعتراف کیا جاتا ہے، مگر ہمارے بزرگ جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ ان باسعادت لوگوں میں سے تھے، جنھیں ان کی زندگی ہی میں خوب شہرت و مقبولیت ملی اور ان کے مقام، مرتبے اور علمی خدمات کا برملا اعتراف کیا گیا۔ مرکز ’’دعوۃ الجالیات‘‘ الکویت کی جانب سے ۳؍ جولائی ۲۰۰۸ء کو وہاں کے ’’قرطبہ ہال‘‘ میں ایک باوقار تقریب منعقد کر کے آپ کو ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کے قابلِ فخر اعزاز سے نوازا گیا۔ الغرض جناب محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ اس قدر دل آویز ہے کہ جی چاہتا ہے اسے زیادہ سے زیادہ تفصیل سے لکھا جائے۔ آپ کی دیگر علمی خدمات و تصانیف کے ساتھ ساتھ صرف شخصیات کی سیرت و سوانح اور تذکرہ نگاری کے حوالے سے اب تک آپ کی جو کتب شائع ہوچکی ہیں ۔ ان میں چند ایک کے نام یہ ہیں : نقوشِ عظمتِ رفتہ، بزمِ ارجمنداں ، کاروانِ سلف، قافلۂ حدیث، ہفت اقلیم، برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن، دبستانِ حدیث، گلستانِ حدیث، قصوری خاندان، میاں فضل حق اور ان کی خدمات، میاں عبدالعزیز مالواڈہ، مولانا احمد دین گکھڑوی رحمہ اللہ ، قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ ، صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ، خود نوشت سوانح حیات ’’گزر گئی گزران‘‘، تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ ، چمنستانِ حدیث وغیرہ۔ آپ اگرچہ عمر کے لحاظ سے بزرگ ہو چکے تھے اور سرکاری قواعد کے مطابق آپ کو ریٹائرڈ کیا جا چکا تھا، تاہم اس کے باوصف آپ کی ہمت جواں تھی، جذبوں اور ارادوں میں مزید پختگی آئی۔ آپ کی جواں ہمتی کی ایک مثال ملاحظہ ہو کہ آپ نے صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ بانی و مہتمم جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے احوال و سوانح پر ایک مفصل کتاب تحریر فرمائی، مگر وہ مسودہ کہیں گم ہو گیا۔ کسی مصنف کی کوئی تحریر، خواہ وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو، گم ہو جائے تو اس کا کتنا افسوس ہوتا ہے اور اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں ، جو مصنف اور لکھاری ہیں ۔ بالخصوص کوئی تاریخی کتاب جو متنوع معلومات پر مشتمل ہوتی ہے، مصنف کے لیے دوبارہ ان کے مصادر تک رسائی اور ان معلومات کا حصول انتہائی مشکل اور حد درجہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بھٹی صاحب رحمہ اللہ جیسے مردِ درویش نے کتاب کو نئے سرے سے مرتب کیا اور یقینا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مصداق مذکورہ کتاب نہ صرف مکمل، بلکہ بہت ہی بہتر اور جامع شکل میں منصہ شہود پر آئی۔ ؂ ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
Flag Counter