Maktaba Wahhabi

222 - 924
گکھڑوی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔ کچھ دیر ان سے باتیں ہوئیں ، پھر ان سے کتاب کا ذکر کیا، ان کے پاس صرف ایک ہی نسخہ تھا، وہ انھوں نے مجھے دیا اور فرمایا: ’’فلاں مکتبہ(اس وقت نام ذہن میں نہیں آرہا)سے معلوم کر لیں ، شاید مل جائیں ۔ میں تلاش کرتا کرتا ان تک پہنچ گیا، لیکن کتاب نہ ملی، چونکہ عزم صمیم تھا، اگلے روز میں پھر حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچا، وہ دروازہ کھول کر دہلیز کے پاس ہی تشریف فرما تھے، چونکہ وہاں دھوپ تھی اور سردی کا موسم تھا، شیخ رحمہ اللہ دھوپ کی وجہ سے وہاں تشریف فرما تھے اور کسی کتاب کا مطالعہ فرما رہے تھے، مجھے دیکھ کر فرمایا: ’’آپ ابھی یہاں ہی ہیں ؟‘‘ عرض کیا: جی ہاں ! ایک بہت ہی ضروری کام تھا، اس لیے رُکنا پڑا اور اسی سلسلے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ فرمانے لگے: کہیے۔ میں نے کتاب کا ذکر کیا، فرمانے لگے: ’’میں کوشش کروں گا، چونکہ کتاب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ، اس لیے کچھ روز لگ جائیں گے، آیندہ ملاقات پر آپ کو مل جائے گی۔‘‘ کچھ دیر میں حضرت شیخ رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر رہا، کچھ باتیں ہوئیں ، پھر میں نے اجازت چاہی اور آیندہ حاضری کا وعدہ کرکے چلا آیا، فرمانے لگے: ’’حضرت حکیم صاحب کو سلام کہیے گا‘‘ میں نے عرض کیا: جی ضرور۔ میری یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ دونوں کتابیں مل گئی تھیں ۔ گوجرانوالہ اور لاہور کچھ مزید دوستوں اور بزرگوں سے ملاقاتیں کرتا ہوا واپس لائل پور(اب فیصل آباد)آگیا۔ یہ دونوں کتابیں اباجی رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کیں ، وہ انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کافی دیر تک انھیں اُلٹ پلٹ کر دیکھتے رہے، پھر ورق گردانی شروع کر دی، یوں لگ رہا تھا کہ انھیں ان دونوں کتابوں سے بہت ہی زیادہ لگاؤ تھا۔ کافی دیر گزر گئی، پھر میری طرف دیکھا اور فرمایا: اگر میں نے ایک ضروری میٹنگ میں نہ جانا ہوتا تو انھیں بغور دیکھتا، اب انھیں میرے سرہانے رکھ دیں ، واپسی پر دیکھوں گا۔ ’’ارشاداتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ میں نے دو ہفتوں میں پڑھ ڈالی۔ ’’مرزائیت نئے زاویوں سے‘‘ کا چونکہ ایک ہی نسخہ تھا اور وہ ابا جی رحمہ اللہ کے سرہانے رکھا تھا، اس لیے میں نے وہیں رہنے دیا، تاکہ جب انھیں وقت ملے تو وہ اسے دیکھ لیں ۔ کچھ روز وہ ویسے ہی پڑی رہی، انھیں وقت ہی نہ ملا، میں نے ابا جی رحمہ اللہ کی اجازت سے وہاں سے لے لی کہ جب وہ مانگیں گے تو انھیں پیش کر دوں گا۔ ابا جی رحمہ اللہ کی ہدایت کے مطابق اسے بغور پڑھنے کا ذہن بنایا، پہلے تو اُسے سرسری طور پر دیکھا، پھر اسے بالاستیعاب پڑھنا شروع کیا، ٹائٹل سے شروع کیا اور ورق ورق چار پانچ ہفتوں میں اسے مکمل کیا اور کتاب ابا جی رحمہ اللہ کے حوالے کر دی۔ فرمانے لگے: کچھ ملا؟ میں نے عرض کیا: ’’کچھ کچھ‘‘ فرمانے لگے: کیا مطلب؟ میں نے عرض کیا: ’’کتاب مولانا ندوی( رحمہ اللہ )نے اپنے مزاج اور اندازِ تحریر کے مطابق فلسفیانہ انداز میں لکھی ہے۔ فرمانے لگے: اسے بار بار پڑھو، یہ جہاں تمھاری تحریر میں نکھار پیدا کرے گی، وہاں اس موضوع پر تمھارا ذہن پختہ کرے گی۔ ابا جی رحمہ اللہ کی یہ بات میرے ذہن میں پیوست ہوگئی، اس کے بعد اس کتاب کو میں نے اس انداز میں پڑھنا شروع کیا، جیسے کسی کتاب کو حفظ کیا جاتا ہے، لیکن پوری توجہ اور سوچ سمجھ کر۔ اس کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ مکمل طور پر اس کے کئی ایک مقامات میری ناقص سمجھ سے بالاتر ہی رہے، لیکن ایک بات ضرور ہوئی کہ
Flag Counter