Maktaba Wahhabi

239 - 924
’’اگست ۱۹۴۹ء میں مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی ادارت میں گوجرانوالا سے ’’الاعتصام‘‘ جاری ہوا تو مجھے معاون مدیر کی حیثیت سے گوجرانوالا بھیجا گیا۔ میں ان دنوں اخبار میں ’’ہمارے علما‘‘ کے عنوان سے اہلِ حدیث علمائے کرام کے حالات لکھا کرتا تھا۔‘‘(قافلۂ حدیث، ص: ۶۶) ’’الاعتصام‘‘ کے عہدِ ادارت ہی میں انھوں نے مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ نمبر مرتب کیا، جسے بعد میں مولانا سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ نے ’’سیدی و ابی‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انھوں نے تحریکِ اہلِ حدیث پر لکھنے کے سفر کا آغاز ۱۹۵۰ء میں کیا۔ یہ سفر مختلف حالات اور کیفیات سے گزرتا ہوا ۲۰۱۵ء میں ان کی وفات پر اختتام پذیر ہوا۔ اس اعتبار سے انھوں نے سڑسٹھ برس تک یہ خدمت انجام دی ہے اور ان برسوں میں انھوں نے سیکڑوں اصحابِ علم و فضل کے تراجم کو کامل مہارت سے ہزاروں صفحات پر منتقل کر دیا ہے۔ اس طرح مورخِ اہلِ حدیث کی حیثیت سے ان کی حیات مبارکہ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: پہلا دور ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۵ء تک ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت کا زمانہ۔ دوسرا دور ۱۹۶۵ء سے ۱۹۹۶ء تک ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے انسلاک کا عہد۔ تیسرا دور ۱۹۹۶ء سے ۲۰۱۵ء تک ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے سبکدوشی کا دور۔ ان ادوار میں تاریخ اہلِ حدیث پر کیے جانے والے ان کے کام کی ہلکی سی جھلک گذشتہ سطور میں موجود ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ تیسرے دور میں انھوں نے جتنا کام کیا، وہ پہلے اور دوسرے دور میں کیے جانے والے کام سے ہر طرح فائق ہے۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات ہے۔ ۱۹۵۶ء میں انھیں ایک خواب دکھائی دیا۔ اس خواب کی تعبیر مولانا محمد حنیف ندوی اور شاہ محمد جعفر پھلواروی رحمہما اللہ نے کی۔ تعبیر یہ تھی کہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ رجال پر اسی قسم کا کام کریں گے، جس قسم کا کام مہر صاحب رحمہ اللہ نے کیا ہے اور مہر صاحب رحمہ اللہ کے کام کی طرح آپ کے کام کو بھی مقبولیت حاصل ہوگی۔ تفصیل کے لیے قافلۂ حدیث(ص: ۳۴۶ تا ۳۴۸)ملاحظہ کیجیے۔ مہر صاحب رحمہ اللہ سے مراد مولانا غلام رسول مہر رحمہ اللہ ہیں ۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے رجال سے متعلق کام کو اور اس کی مقبولیت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل معاملہ نہیں رہا ہے کہ خواب سچا تھا، جو حرف بحرف پورا ہوا۔ بلاشبہہ بعض خواب سچے ہوتے ہیں ۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ۱۹۲۵ء میں ریاست فرید کوٹ، ہندوستان میں پیدا ہوئے اور ۲۰۱۵ء کو لاہور میں وفات پائی۔ اگرچہ ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، لیکن میں بلامبالغہ یہ عرض کرتا ہوں کہ اگلے پچاس برسوں تک ان پر لکھا جاتا رہے گا۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدماتِ اسلام کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ والحمد للّٰہ رب العالمین!
Flag Counter