Maktaba Wahhabi

256 - 924
لکھتے کہ جیسے اس واقعہ کے وقوع کے وقت آپ وہاں موجود تھے۔ ہر تحریر پڑھنے کے وقت خواہش ہوتی کہ ناجانے کب آپ کی زیارت ہوگی، لیکن ایک دن وہ بھی آگیا۔ ۲۰۱۱ء کے آخر کی بات ہے کہ ایک دن لاہور مکتبہ اسلامیہ کے سرپرست، جو علم دوستی میں خاصا نام رکھتے ہیں ، ہمارے بڑے بھائی محمد سرور عاصم صاحب کے پاس بیٹھے گفتگو ہو رہی تھی کہ اچانک ایک بزرگ نمودار ہوئے، نورانی روحانی اور باریش چہرے والے یہ بزرگ کاؤنٹر پر سرور صاحب سے کھڑے کھڑے شایدکسی ناشر کا کچھ شکوہ کر رہے تھے، میں ان کی بات بڑی توجہ سے سننے لگا، بات ختم کی اور چل دیے۔ دکان کی سیڑھی سے پھر واپس آئے اور فرمانے لگی: ’’سرور صاحب آپ بڑا دفاع کر رہے ہیں اپنی برادری کا۔۔۔ لیکن سن لو ’’ناشر ہو یا پبلشر‘‘ شر تو دونوں میں ہوتا ہے۔‘‘۔۔۔ یہ بات کہہ کر مسکراتے ہوئے چل دیے۔ میں نے جلدی سے پوچھا: سرور صاحب یہ کون بزرگ تھے تو فرمانے لگے: یہی تو تھے مورخ اہلِ حدیث مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ ۔ یہ تھی بندئہ راقم کی پہلی ملاقات کہ جس میں آپ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، مجھے یہاں ایک شاعر کا شعر یاد آ رہا ہے: شرافت بھی عجیب چیز ہے دوست شر بھی ہے اس میں اور آفت بھی اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو بے شمار اوصافِ حمیدہ سے نوازا تھا۔ ہنس مکھ چہرہ، حسد سے پاک سینہ، خوش اخلاقی و ملنساری، ہر ایک سے محبت، خوش الحان اور خوش مزاج تھے۔ مجھے نیٹ پر حافظ عثمان بن خالد مرجالوی صاحب نے یہ تحریر سینڈ کی کہ موصوف رحمہ اللہ علما کنونشن مرکز طیبہ مریدکے تشریف لائے۔ میں بھی اس پروگرام میں شریک تھا، آپ اپنی گفتگو میں فرمانے لگے: ’’میں کوئی اتنا خطیب تو نہیں ..... نہ مجھے کوئی تقریر کے لیے بلاتا ہے….... قلم میرا ہتھیار ہے..... قرطاس میدان… بس ایک گوشے میں تنہا بیٹھ کر لکھتا رہتا ہوں ..... میں کبھی پیر کے پاس نہیں گیا… پر آج مرید کے آنا پڑ گیا ہے..... یہ باتیں کہہ کر آپ مسکرانے لگے.....‘‘ ۱۴۲۸ھ کی بات ہے کہ بھائی رانا حکیم مدثر محمد خان سمندری والے راقم کے پاس تاج مسجد میں آئے اور فرمانے لگے کہ مولانا اسحاق بھٹی صاحب ’’دبستانِ حدیث‘‘ کتاب تحریر فرما رہے ہیں ، انھوں نے بندہ کی ذمے داری لگائی ہے کہ حافظ عبد المنان نورپوری صاحب رحمہ اللہ کے حالات لکھ کر یا لکھوا کر دیں تو میں نے ذمے داری قبول کر لی ہے اب آپ ساتھ چلیں ، مگر استادِ محترم رحمہ اللہ کے پاس جاکر کہنے کی بالمشافہہ جراَت نہ ہوئی۔ ہم مولانا محمد مالک بھنڈر صاحب کے پاس پہنچے تو آپ کے مشورے پر رانا صاحب نے خط لکھ کر حالاتِ زندگی کا مطالبہ کیا، جس پر حافظ صاحب رحمہ اللہ نے اپنی سوانح عمری لکھ کر رانا مدثر بھائی کو سمندری پوسٹ کی اور ساتھ اپنے ان شاگردوں کے نام بھی
Flag Counter