Maktaba Wahhabi

260 - 924
خطبات اور انٹرویوز پر بھی الگ الگ کتابیں مرتب کرلی ہیں ، جو عن قریب منصہ شہود پر آجائیں گی۔ ان شاء اللّٰہ ۔ اللہ تعالیٰ برادرِ عزیز حمید اللہ خان عزیز کو بہت زیادہ ہمت عطا فرمائے کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی حیات و خدمات کے متعدد گوشوں کو حیطۂ تحریر میں لانے میں ان کی کاوشیں یقینا قابلِ قدر ہیں ۔ جزاکم اللّٰہ أحسن الجزاء۔ غرض ان کی زندگی اور وفات کے بعد ان کے بارے بہت لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا۔ مولانا گرامی جماعت اہلِ حدیث کے وہ واحد نامور قلم کار، منفرد خاکہ نویس، صاحبِ طرز ادیب اور عظیم مورخ تھے کہ جب سے وہ قلم و قرطاس سے وابستہ ہوئے، پیرانہ سالی تک وہ مسلسل لکھتے ہی رہے۔ تقریباً چالیس کے قریب ضخیم کتب ان کے اشہبِ قلم سے ضبطِ تحریر میں آئیں ۔ آپ کی کاوش زیادہ تر سوانح حیات اور خاکہ نگاری پر ہے۔ علاوہ ازیں مولانا صاحب نے پنجاب یونیورسٹی کے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں مختلف موضوعات پر پچاس سے زائد مقالات لکھے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن میں مختلف موضوعات پر تقاریر کیں ۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور اور ماہنامہ ’’المعارف‘‘ لاہور کے کافی عرصہ مدیر رہے۔ اپنا اخبار سہ روزہ ’’منہاج‘‘ کے نام سے شروع کیا، جو چودہ ماہ جاری رہا۔ اس کے علاوہ درجنوں کتب پر مقدمات اور جماعتی رسائل و جرائد میں کئی مضامین تحریر کیے۔ قصہ کوتاہ وہ اس عہد کے نامور مصنف، صاحبِ طرز ادیب اور بہترین انشا پرداز تھے۔ ان کی تصنیف کا شہرہ ہند و پاک کے دور دراز علاقوں تک پہنچا۔ ان کی عظمت اور خدمات ومساعی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف مقامات پر تقاریب منعقد ہوئیں ۔ مولانا عارف جاوید محمدی صاحب حفظہ اللہ کی کاوش سے کویت میں ۲۰۰۸ء میں مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد ہوا، جس میں علمائے کرام نے بھٹی صاحب کی خدماتِ جلیلہ کو خوب سراہا اور ان کی تحریری خدمات کے پیشِ نظر انھیں ’’مورخ اہلِ حدیث‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ واقعی وہ عظیم عالم اور مصنف تھے۔ زمانہ طالب علمی میں راقم ان کی کتب بڑے شوق سے پڑھتا رہا۔ ۲۰۰۸ء میں مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ایسا مضبوط تعلق استوار ہوا، جو الحمد للہ ان کے آخری ایام تک برقرار رہا۔ میری پہلی ملاقات کا سبب ’’مولانا عبدالتواب محدث ملتانی رحمہ اللہ ‘‘نامی کتاب ہے۔ راقم اس کتاب پر مقدمہ لکھوانے کی غرض سے ان کے دولت خانہ لاہور حاضر ہوا۔ دروازے پر دستک دی تو ایک سادہ سا انسان نمودار ہوا۔ میں نے کہا: مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کی غرض سے آیا ہوں ۔ فرمانے لگے: وہ آپ کے سامنے کھڑا ہے۔ بڑے تپاک سے ملے۔ بیٹھک میں بٹھایا، خاطر تواضع کے بعد کافی دیر حال واحوال دریافت کرتے رہے۔ میرے تحریری کام سے بڑے خوش ہوئے۔ بڑے اچھے انداز سے راہنمائی فرمائی اور قلیل مدت میں کتاب پر مقدمہ لکھ کر ارسال کر دیا۔ راقم ان کی سادہ مزاجی، اعلی ظرفی اور مشفقانہ انداز سے بڑا متاثر ہوا اور یہ تاثر ان کی آخری عمر تک قائم رہا۔
Flag Counter