Maktaba Wahhabi

264 - 924
ایسے ہی پڑھنا پڑے گا تو پھر بڑا مسکراتے اور فرماتے: یہ تو دھمکی ہے۔ اسی طرح وہ جب کسی بھی نو آموز کی تالیف و تصنیف پر تقریظ و مقدمہ لکھتے یا تبصرہ کرتے تو ہر قسم کے تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر اور بخل کیے بغیر داد دیتے اور اصلاح کے ساتھ خوب حوصلہ افزائی فرماتے۔ حال ہی میں راقم الحروف کی کتاب: ’’تحریک ختمِ نبوت کے اولیں نقوش‘‘ پر اُنھوں نے تقریظ لکھی تو بڑی فراخ دلی سے تبصرہ فرمایا، چنانچہ ہم جیسے طلبہ کے لیے ممدوح مرحوم کا وجود بلاشبہہ غنیمت تھا کہ حسد و حقد سے آلودہ دلوں اور بغض و عناد سے متعفن دماغوں کی چہل پہل میں ایسا قلبِ سلیم اور فکرِ مستقیم رکھنے والا مرد درویش شاید اب مدت مدید تک نصیب نہ ہوسکے۔ ممدوح مرحوم نے اپنی آپ بیتی بنام ’’گزر گئی گزران‘‘ لکھ کر کسی کو ان کی کتاب زندگی مرتب کرنے سے مستغنی کر دیا ہے، لہٰذا ان کی زندگی کے لیل و نہار اور لمحاتِ آمد و رفت یا واقعاتِ اخلاق و کردار کو ضبط تحریر میں لانا تو اسی طرح مفید بلکہ مناسب ہوگا کہ جس کسی سے ان کو کوئی خاص واقعہ متعلق ہو، اسے سامنے لایا جائے۔ ظاہر ہے ایسا وہی حضرات کر سکتے ہیں جن سے ان کا بہت قریبی اور مختلف حوالوں سے رابطہ و تعلق رہا ہے۔ راقم الحروف بہرحال ان کے ایسے حلقہ احباب میں ہونے کی سعادت نہیں رکھتا، تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس طویل عرصے میں ان سے جس قدر بھی ملاقاتیں ہوئیں ، ان میں ان کی شرافت و نجابت، حفظ و ثقاہت اور ظرافت و لطافت جھلکتی تھی۔ مجلس جیسی بھی ہوتی میرِ مجلس وہی رہتے اور ان کی ایک مجلس ان کی زندگی کی کئی مجلسوں کی مجلس ہوتی تھی، جس کے ذریعے شریکِ مجلس خود کو بڑی دیگر مجالس کا جلیس محسوس کرتا اور یہ بھی ان کی زندگی کا ایک امتیازی پہلو تھا۔ ممدوح مرحوم کے جد ا ہو جانے سے اگر ان کے حلقہ احباب کو شدت سے احساس ہوگا تو اس میں یہ پہلو نمایاں رہے گا، کیونکہ مرحوم کو اپنی زندگی کی ۹۱ بہاروں میں اپنے اپنے طور پر علم و فضل کی نمایاں شخصیات کو ملنے اور دیکھنے کا موقع ملا، موصوف ان کے سفرِ زندگی کے ایسے راوی تھے کہ ایک طرف ان کی ان آنکھوں سے تصویر کشی ہوتی تھی، جن آنکھوں نے ان اکابر کو دیکھنے کی سعادت پائی تو دوسری طرف زبان سے یوں حکایت ہوتی کہ سننے والا خود کو ان کا رفیقِ سفر سمجھتا اور یہی خاصیت ان کی کتابوں کی ہے، جن کا مطالعہ کرنے والا خود کو یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ مرحوم کی انگلی پکڑے مترجم کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ ممدوح مکرم کی تحریر میں خاصے کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ واقعہ کو من و عن بیان کرتے ہیں ، بلکہ اس کے ماخذ کا بھی ذکر ضروری سمجھتے ہیں ، بلکہ اگر واقعات کسی شخص کے حوالے سے ملتے ہیں تو بڑی شرح صدر سے ان کا ذکرِ خیر بھی کرتے ہیں اس سلسلے میں کتمان تو کیا سلیقہ اظہار میں بخل کو بھی جرم سمجھتے ہیں ، اور یہ سب کچھ اس دور میں ہو رہا ہے، جب سرقہ بھی استحقاقی ماخذ قرار پا چکا ہے۔ چہ جائیکہ کسی کے شکریے سے کسی واقعہ کو نقل کیا جائے۔ نقل اور سرقہ کرنے والے کو شاید معلوم نہیں ہوتا کہ جس کی محنت کو چرا کر وہ ﴿ وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا ﴾ [آل عمران: ۱۸۸] کا مصداق و مظہر بن رہا ہے اس نے کتنے دنوں ، بلکہ مہینوں کی سحر گاہی سے یہ مواد جمع کیا ہے، ٹھیک ہے وہ تو اپنے قارئین سے دادِ تحسین اور خراجِ آفریں پا لے گا، مگر اس کفران و ناسپاسی ’’من لم یشکر الناس لم
Flag Counter