Maktaba Wahhabi

268 - 924
مسکنِ فردوس میں ملاقات کا شرف بخشے۔ آمین بہرحال اگر کوئی صاحبِ ذوق اس سوال کے جواب میں نکلے تو اس سوال کا جواب بھی تلاش کر لائے کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بہت سے لوگوں کا ذکر کیا اور بڑی شرح صدر سے کیا اور اس فیاضی سے کیا کہ اس کے ذیل میں ان کا ذکر بھی آگیا، جن کے بغیر بھی مترجم کا ذکر مکمل تھا۔ لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ موصوف نے کہیں ابھی تک رفیقہ حیات کا ذکر نہیں کیا۔ نہ اپنی شادی کی شروعات نہ تقریب کی نہایات نہ اہلیہ سے عسرو یسر کی کیفیت نہ زہد و تقوی کی حالت، نہ تلخی کا کوئی شکوہ، نہ ہنسی مزاج کی کوئی شیرینی، ہاں ذکر کیا تو صرف دو سطروں میں یوں کہ ’’بم کے چند ذرات چودہ، پندرہ سال کی لڑکی کے پاؤں میں بھی گھس گئے، یہ میرے ماموں کی بیٹی تھی، جس سے کچھ عرصہ بعد میری شادی ہوئی، اس کا نشان ہمیشہ اس کے پاؤں پر موجود رہا۔‘‘ (گزر گئی گزران، ص: ۱۸۸) یہ شادی کب، کہاں اور کیسے ہوئی اور پھر عمر عزیز کی کتنی بہاریں کس طرح گزریں ؟ سب کچھ سے اعراض کرکے یکدم آخر کتاب میں رفیقۂ حیات کے سفر آخرت کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ بڑی خدمت گزار، مہمان نواز، وفا شعار اور اقربا پرور خاتون تھیں ، جو چند دن بیمار رہ کر داغِ مفارقت دے گئیں ۔ اسے ہم ناسپاسی تو نہیں کہہ سکتے کہ بھٹی صاحب مرحوم سے اس کی نسبت ممکن ہی نہیں جو اکابر و اساطین کے گرد پا میں ہر ایرے غیرے کا ذکر بھی کر جاتے ہیں ، وہ رفیقہ حیات کا ذکر کیوں نہ کر سکے۔ یہ ایک راز بھی ہے اور سوال بھی، ہمارا حسنِ ظن ہے کہ شاید موصوف الگ سے ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں ، مگر زندگی نے وفا نہ کی۔ ہاں تو یہ راز پانے یا سوال کے جواب کی تلاش میں تو صاحبِ جستجو نکلیں تو اس انکشاف کی تصدیق بھی کرتے آئیں کہ بھٹی صاحب کی ایک اہلیہ کا نام مجیدہ بی بی دختر عبدالغنی ہے، جن کی صفات و وفات کا مرحوم نے ذکر کیا ہے اور شاید ایک اہلیہ اور بھی تھیں ، جن کا نام سلامت بی بی تھا، جو قاضی عبداللہ کی بہن تھیں اور ان کے بطن سے ان کی ایک صاحبزادی ثریا بی بی ہیں ۔ اس خاتون کو مرحوم نے طلاق دے دی تھی اور بعد ازاں ان کا نکاح ملک فتح محمد سے ہوا جن کی چار بیویاں تھیں اور سلامت بی بی آخری زوجہ تھیں ۔ ملک فتح محمد مرحوم معروف و مشہور مسلکی و جماعتی شخصیت ملک بشیر احمد صاحب(اسلامک شہد والے)کے والد تھے اور ہمارے فاضل دوست علامہ شفیق الرحمن فرخ صاحب کے دادا تھے۔ فرخ صاحب کے بقول مرحومہ نہایت متقی پارسا اور نیک خاتون تھیں ۔ مستجاب الدعوات تھیں کہ لوگ اپنے مریضوں کو بڑی عقیدت سے دم کروانے آتے اور وہ شفا پاتے۔ وہ اس قدر باپردہ تھیں کہ ایک مرتبہ صبح ریڈیو پاکستان پر درسِ قرآن سننے بیٹھیں تو اچانک بھٹی صاحب مرحوم کا درسِ قرآن شروع ہوگیا تو فوراً گھونگٹ نکال لیا۔ ہماری دوسری دادی جان نے پوچھا: سلامتے! کون آیا ہے؟ تو ریڈیو کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا۔ وہ نہ سمجھ سکیں تو
Flag Counter