Maktaba Wahhabi

275 - 924
حق میں ہمیشہ رطب اللسان اور سراپاشفقت و محبت تھے۔ ہماری کمی کوتاہی کی نشان دہی فرماتے اور اخبارات و رسائل کے مطالعے پر زور دیتے تھے۔ راقم کو ان کی شفقتیں اور محبتیں وافر مقدار میں میسر رہیں ۔ چند برسوں سے وہ میرے مضامین اور کتب پر تبصرہ جات کی تحسین اور اصلاح بھی فرماتے رہے۔ اگر کسی بات پر نقطۂ نظر بیان کرنا مقصود ہوتا تو ہم جیسے خوردوں کو فون پر مطلع فرماتے۔ اکثر وہ مطالعہ کرنے پر زور دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ ’’پڑھا کرو اور ٖغور سے جملوں اور الفاظ کی لفاظی کو مد نظر رکھا کرو۔ ویسے لکھتے رہواور مزید لکھتے رہا کرو۔‘‘ مولانا بھٹی صاحب بہت زیادہ لکھتے تھے، ان کے لکھنے کا انداز بہت ہی دلنشین اور معلومات افزا ہوتا تھا۔ حضرت مرحوم، راقم کو اکثر فون پر یاد فرماتے اور مرحومین علمائے کرام کی وفیات اور مختصر تذکار جو ’’الاعتصام‘‘ میں شائع ہوا کرتے تھے، ان کے بارے میں فرماتے کہ سلیم یار! مجھے فلاں عالمِ دین یا فلاں بندے کی تاریخ پیدایش، تاریخِ وفات یا دیگر لوازمات چاہییں ۔ میں سارے دفتری کام ملتوی کر کے ان کی آواز پر لبیک کہتا اور اپنی خصوصی توجہ ان کے فرمان پر صَرف کر کے مطلوبہ معلومات فون پر فراہم کر دیتا۔ بعض دفعہ زور زور سے بولنا پڑتا کہ ان کی سماعت میں تقاضائے عمر کی بنا پر کمی بیشی ہو جاتی تھی اور اس طرح کئی دلچسپ باتیں ہو جایا کرتی تھیں ۔ ان کی یادیں ، ان کی تحریریں ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں ۔ سیکڑوں علمائے کرام(اکابر و اصاغر)کے تذکرے کرتے رہے۔ لکھتے رہے اور سنتے سناتے رہے۔ ان کے گاؤں چک ۵۳ گ ب ڈھیسیاں جڑانوالہ سے جب کبھی ساگ، مکھن اور مکئی کا آٹا آتا تو فون کرتے کہ ’’سلیم میاں ! میرے پاس آج ضرور ہو کر جانا، میں پنڈ دی سوغات کھلاؤں گا۔‘‘ میں فوراً سمجھ جاتا کہ کیا معاملہ ہے۔۔۔۔ اللہ اکبر! آج یہ تاریخی بندہ جس نے اتنی تاریخ لکھی اور اتنی شہرت حاصل کی کہ ہندو پاک کیا عرب ممالک تک انھیں سنا اور پڑھا گیا۔ کویت جیسے عرب ملک میں انھیں ’’مورخ اہلِ حدیث‘‘ کا لقب عطا کیا گیا۔ وہاں ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی۔ کویتی احباب میں محترم الشیخ عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ ، الشیخ صلاح الدین مقبول، الشیخ خالد فلاح المطیری حفظہ اللہ اور دیگر کئی افراد ان کے قدر دانوں میں شامل ہیں ۔ حضرت مخدوم گرامی نے جب کتاب ’’صوفی عبداللہ‘‘ مرتب کی تو کئی معلومات اور سفر کے سلسلے میں حضرت مرحوم کے ساتھ جانا پڑا۔ غازی عبدالکریم مجاہد رحمہ اللہ سے میں نے انٹرویو کیا اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو جامعہ تعلیم الاسلام(ماموں کانجن)میں تحریری طور پر پیش کیا۔ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کی زیارت اور وہاں کی سالانہ کانفرنسوں میں جناب مخدوم گرامی رحمہ اللہ کی معیت میں کئی بار جانے کا موقع میسر آیا۔ وہاں سب سے زیادہ خوشی میرے لیے عارف باللہ حضرت صوفی عبداللہ رحمہ اللہ کی آخری آرام گاہ پر دعاکرنا ہوتا تھا۔ حضرت صوفی صاحب مرحوم و مغفور کی قبر
Flag Counter