Maktaba Wahhabi

286 - 924
گا۔ انھوں نے جو کام کیا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ تاریخ کے ایک ماہر قلمکار تھے۔ اللہ نے آپ رحمہ اللہ کو بلا کی یادداشت عطا فرمائی تھی۔ ذہانت ان کی شخصیت کا حصہ تھی اور حاضر دماغی میں وہ لاثانی تھے۔ آپ اپنی یادوں کی پٹاری میں سے کسی ایک شخصیت کا نام سامنے لائیں ، بھٹی صاحب اس کی پوری تاریخ آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔ ویسے بھی نامور اور ممتاز شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے افراط و تفریط اور رطب و یابس سے اپنا دامنِ قلم کوئی کوئی بچا سکتا ہے اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ اس قبیلے کے سرخیل تھے، جنھوں نے شخصیات پر لکھا، مگر اپنے مخالف کی عزت کو بھی داؤ پر نہیں لگایا۔ یادوں اور ملاقاتوں کو قلم بند کرنا کوئی معمولی کام نہیں ، اس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے، ہر شخصیت ایسی ہوتی ہے کہ جس کے چاہنے والے بھی بہت ہوتے ہیں اور مخالفت کرنے والے بھی کم نہیں ہوتے، مگر اس نازک راستے پر چلتے ہوئے کامیابی سے تکمیل کی منزل تک پہنچ جانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ، مگر یہ کام بھٹی صاحب رحمہ اللہ جیسی شخصیت کر سکتی تھی اور آپ نے کر کے دکھایا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ایسا زرخیز دماغ پایا کہ وہ جیسے ہی یادوں کے گلستان میں داخل ہوتے، علم و دانش کے چشمے اُبلنے لگتے، ان کے قلم کی کاٹ، جملوں کی ساخت اور اسلوب کی دلکشی قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتی۔ ان کی کتابیں قاری کو اپنے حصار میں جکڑتی ہیں اور پھر اُنھیں اپنے ساتھ ہی لیے پھرتی ہیں ، وہ اپنے لفظوں کو ہتھوڑی سے نہیں گھڑتے تھے، نہ ان کا میک اپ ہی کرتے تھے، بلکہ بے تکلف لکھتے تھے، کیوں کہ بولتے بھی بے تکلف تھے۔ وہ زاہد خشک نہیں تھے، بلکہ ایک زندہ دل انسان تھے، ان کے چند جملے پیش کرتا ہوں ، جن کو پڑھ کر بے اختیار چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ ایک کتاب میں بعض حضرات کی نماز میں حرکتیں کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کیا خوبصورت انداز میں سمجھایا کہ ’’یہ کھرک في الصلاۃ‘‘ کا مسئلہ ہے۔ ’’مریدکے‘‘ کسی اجتماع میں تشریف لے گئے تو دورانِ گفتگو ایک صاحب سے فرمایا کہ ’’میں کبھی ’’پیر کے پاس‘‘ نہیں گیا، مجھے آج ’’مریدکے‘‘ آنا پڑ گیا ہے۔ بلاشبہہ حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ایک غیر معمولی انسان تھے۔ وہ ہر وقت مطالعہ، مکالمہ اور لفظوں کی صورت گری جاری رکھتے تھے۔ وہ وقار کے کوہسار تھے، اقلیمِ علم و قلم کے شہسوار تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کو با مقصد بنایا، جتنا جیے اتنا جینے کا حق ادا کر دیا، لکھنے پہ آئے تو نسلوں کا قرض ادا کر دیا۔ ہم بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تحریریں علم و صحافت، خاکہ نویسی اور شخصیت نگاری کے فن کو کبھی مرنے نہیں دیں گی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہم سے جدا ہو چکے ہیں ، علم و دانش کا ایک باب ہمیشہ کے لیے بند اور تصنیف و تالیف کا روشن ستارہ ڈوب چکا ہے۔ اب ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں ۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ اللّٰھم اغفرلہ و ارحمہ وعافہ واعف عنہ۔ اللہ پاک جنت الفردوس میں انھیں رفاقتِ صدیقین میسر فرمائے اور ہر لمحہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
Flag Counter