Maktaba Wahhabi

318 - 924
دونوں بزرگ ہم مسلک ضرور تھے، مگر علمی اور نسبی شجرہ دونوں کا مختلف تھا۔ بالآخر ہم نے مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے رابطہ کر کے حقیقت معلوم کی تو انھوں نے دونوں اکابر کا سن ولادت و وفات، خاندانی پسِ منظر اور تحصیل و ترویج علم کے لیے ان کی مساعیِ جمیلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ثابت فرمایا کہ دونوں کے مابین دور کا بھی نسبی تعلق تھا، نہ ہی وہ براہِ راست استاد شاگرد تھے۔ اہلِ حدیث کے دیرینہ ساتھی اور معروف لکھاری جناب عطا محمد جنجوعہ صاحب نے ایک ملاقات میں میانوالی کے جماعتی اکابر کے بارے میں لکھنے کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے اکابر کی خدمات کا کوئی پہلو پوشیدہ اور حوادثِ زمانہ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے اپنے ایک بزرگ اور معروف عالمِ دین مولانا دین محمد رحمہ اللہ کی سوانح حیات پر مبنی ایک کتاب بھی عنایت فرمائی۔ جناب جنجوعہ صاحب کی مخلصانہ اور معقول رائے پر میں نے اپنے بزرگوں سے تحریری و سینہ بہ سینہ ملنے والی معلومات کی روشنی میں اکابر کی علمی، دینی و ملی خدمات قلم بند کرنے کا کام شروع کیا اور تکمیل کے بعد اصلاح و نظرِ ثانی کے لیے مورخ اہلِ حدیث مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کرنے کا قصد کیا۔ میں نے فیس بک پر احباب سے مولانا موصوف کا فون نمبر فراہم کرنے کی استدعا کی، جس پر برادرم محترم پروفیسر حماد لکھوی صاحب نے مولانا صاحب رحمہ اللہ کا فون نمبر مجھے ایس ایم ایس کر دیا۔ ۲۶؍ نومبر ۲۰۱۵ء کو میں نے مولانا صاحب رحمہ اللہ سے فون پر رابطہ کر کے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ پچھلے پہر کا وقت مقرر ہوا۔ میں حسبِ پروگرام مولانا صاحب رحمہ اللہ کے دولت خانہ پر حاضر ہوا اور مولانا صاحب رحمہ اللہ کو پہلے ہی منتظر پایا۔ اندر داخل ہوتے ہی بڑی خندہ پیشانی سے اُٹھ کر ملے اور دونوں بازوؤں میں از راہِ شفقت دبوچ لیا۔ پھر اپنے قریب ہی ایک کرسی پر بٹھا کر گویا ہوئے کہ ’’جی عزیز اپنا تعارف کرائیے۔ کیا نام ہے؟ کہاں سے تعلق ہے؟ کیا مقصدِ ملاقات ہے؟‘‘ میں عرض پرداز ہوا کہ خاکسار کو احسان الحق کہتے ہیں ، میانوالی کے معروف قریشی ہاشمی خاندان سے تعلق ہے اور اکابر کی سوانح پر نظرثانی اور اصلاح کی درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں ۔ میرا جواب سن کر بولے کہ آپ کے مضامین مختلف جرائد میں نظر سے گزرتے رہتے ہیں ۔ یوں قلمی تعارف تو ہو گیا۔ میں مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کے زمانے میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کا ایڈیٹر ہوا کرتا تھا، اس دور میں میانوالی سے فضل حق ہاشمی صاحب رحمہ اللہ کے مضامین آیا کرتے تھے۔ بڑے خوش خط، علمی اور جامع ہوا کرتے تھے۔ عزیزم کیا آپ ان کو جانتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ میں ان کا بیٹا ہوں ۔ یہ سن کر موصوف نے مجھے پھر گلے لگا لیا اور فرمایا: ﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ ﴾ [الطور: ۲۱]۔ مرحوم کی اس بات پر میری آنکھیں پر نم اور دل شرمندہ ہوا کہ یہ محض مولانا رحمہ اللہ کا حسنِ ظن ہے، ورنہ میں تو ﴿ وَمَا بَلَغُوا مِعْشَارَ مَا آتَيْنَاهُمْ ﴾ [السبا: ۴۵] کا مصداق ہوں ۔ دورانِ گفتگو مولانا صاحب رحمہ اللہ میرے مسودے کو اُلٹتے پلٹتے اور کہتے جاتے تھے: ’’کاش! یہ مواد آپ مجھے
Flag Counter