Maktaba Wahhabi

327 - 924
مشتمل ہو گی۔ راقم کو اُردو زبان میں ذخیرۂ کتب زیادہ نظر آیا۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی لائبریری میں مختلف زبانوں میں قرآن مقدس کے تراجم جمع کر رکھے تھے۔ موصوف نے راقم کو وہ دو کتابیں (جپ جی اور سکھ منی صاحب، ہیر وارث شاہ)بھی دکھائیں جو انھیں ہجرت پاکستان کے بعد چک نمبر ۵۳ گ ب منصور پور جڑاں والا سے ملی تھیں ۔ ان کتابوں کو مورخِ اہلِ حدیث نے بڑی احتیاط سے سنبھال رکھا تھا۔ چند منٹ میں ہم نے مکمل لائبریری دیکھ لی۔ پھر چند لمحوں کے لیے وہاں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اسی دوران میں محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’پرسوں کی بات ہے، ایک شخص نے مجھ سے فون پر رابطہ کیا، وہ کہنے لگے کہ میں آپ سے ملاقات کا متمنی ہوں ۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں ایک کتاب جمع کر رہا ہوں جس میں ، میں نے ان قلمکاروں کا پردہ فاش کیا ہے، جنھوں نے دوسرے اہلِ علم و فضل کے مضامین چرا کر اپنے ناموں سے شائع کیے ہیں اور علمی سرقہ کا ارتکاب کیا ہے۔ ان سارقینِ علم میں میرے مسلک(بریلوی)کے حضرات بکثرت ہیں ۔‘‘ اسی ضمن میں مکرمی مورخ اہلِ حدیث نے راقم کو علمی سرقے کے حوالے سے یہ باعثِ عبرت واقعہ سنایا کہ ’’ایک مرتبہ میں ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور کسی کام سے گیا۔ ان دنوں میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ وہاں مجھے میرے گہرے اور بے تکلف دوست شاہ محمد جعفر پھلواروی رحمہ اللہ ملے، جو ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے منسلک تھے۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے: بھٹی صاحب! آپ نے ’’مہرِ نیم روز‘‘ کا پرچہ دیکھا ہے؟ میں نے عرض کی، نہیں ۔ انھوں نے فرمایا: اس ماہ کے پرچے کو لازمی دیکھنا، ایک دو دن کے بعد میں دوبارہ جب ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ گیا تو پھلواروی صاحب رحمہ اللہ نے مجھ سے دوبارہ پوچھا: بھٹی صاحب ’’مہر نیم روز‘‘ کا پرچہ پڑھا ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ انھوں نے عرض کیا کہ اسے ضرور پڑھنا، اگر آپ کے پاس یہ پرچہ نہیں پہنچا تو مجھ سے حاصل کر لیں ۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شاہ صاحب موصوف کے بار بار تلقین کرنے سے میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس پرچے میں ضرور کوئی ایسی چیز ہے جو قابلِ مطالعہ ہے۔ اب ’’مہر نیم روز‘‘ کا پرچہ پڑھنے کا ذوق میرے اندر مزید پیدا ہو گیا۔ مذکورہ پرچہ کراچی سے شائع ہوتا تھا۔ اس کے ایڈیٹر محترم جناب حسن مثنیٰ صاحب تھے، جو اس میں ’’چہ دلاور است دُزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘ کے نام سے اپنا مضمون رقم کرتے تھے۔ اس مضمون میں حسن مثنیٰ صاحب ان حضرات کی چوری پکڑتے تھے، جو کسی دوسرے صاحبِ علم کی تحریر چرا کر اپنے نام سے شائع کرواتے تھے۔ ’’چہ دلاور است دُزدے‘‘ کے عنوان سے جو مضامین ’’مہر نیم روز‘‘ میں چھپے تھے، وہ کسی نے کتابی صورت میں شائع کر دیے ہیں ۔ اس روز جب میں اپنے گھر آیا تو ’’مہر نیم روز‘‘ کا پرچہ بھی ڈاک کے ذریعے گھر آیا ہوا تھا۔ میں نے سب سے پہلے وہ پرچہ پڑھا۔ اس شمارے میں جناب حسن مثنیٰ صاحب نے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ اور اس کے ایڈیٹر کے
Flag Counter