Maktaba Wahhabi

360 - 924
میں علی پور جیل کلکتہ میں دیا تھا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ طالب علمی کے زمانے ہی میں شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی ’’الفاروق‘‘ کا مطالعہ کیا، سید سلیمان ندوی مرحوم کے ’’خطباتِ مدراس‘‘ بھی انہی دنوں پڑھے۔ اسی دور میں معروف ادیب میرزا ادیب مرحوم کی ایک کتاب ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ پڑھی۔ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی رحمہ اللہ کی ’’تاریخِ اسلام‘‘ کا بھی عہدِ طالب علمی ہی میں مطالعہ کیا۔ اسی طرح ایک اور مصنف کی کتاب ’’آئینہ حقیقتِ نماز‘‘ پڑھی۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے اخبار، ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ کا بھی اسی عہد میں پتا چلا اور اس کا مطالعہ کرتا رہا۔ دیوان سنگھ مفتون صحافی کے اخبار ’’ریاست‘‘ کا بھی مطالعہ کرتا رہا۔ لاہور سے ایک ماہنامہ ’’بیسویں صدی‘‘ نکلتا تھا، اس کا ایڈیٹر ایک ہندو تھا، اس میں ایک افسانہ اسحاق رام نگری کا تھا، سب سے پہلے میں نے یہ افسانہ پڑھا تھا۔ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کا بھی بچپن سے قاری تھا۔ مولانا عبدالحلیم شرر کے تاریخی ناول بھی میں نے پڑھے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں ، میں نے ہندوؤں کی بعض کتابیں پڑھیں ، جن میں سے ایک کتاب ’’مہا بھارت‘‘ ہے۔ بچپن ہی میں ’’رامائن‘‘ اور ’’بھگوت گیتا‘‘ کے اردو ترجمے بھی پڑھے۔ پنجاب یونیورسٹی کی کتب سے بھی استفادہ کرتا رہا۔ ان کے علاوہ پنجاب پبلک لائبریری اور عجائب گھر کی لائبریری سے بھی بہت فائدہ اٹھایا۔ انفرادی لائبریریوں میں ، مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ کی لائبریری، جناب محمد مختار عالم حق رحمہ اللہ کی لائبریری سے بھی میں نے بہت فائدہ اٹھایا۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ کی لائبریری ’’بیت الحکمت‘‘ سے بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بہت سی کتابیں مستعار لے کر مطالعہ کیں ۔ گوجرانوالہ کے ایک دوست ضیاء اللہ کھوکھر صاحب کی لائبریری سے بھی بھٹی صاحب نے بہت فائدہ اٹھایا۔ دکھا دوں گا اس جہاں کو جو میری آنکھوں نے دیکھا ہے تجھے بھی صورتِ آئینہ حیران کرکے چھوڑوں گا بھٹی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ میری اپنی لائبریری بہت مختصر ہے۔ تقسیمِ وطن سے پہلے دو سو کتابیں اپنے وطن کوٹ کپورہ میں رہ گئی تھیں اور یہ کہ ۱۹۴۸ء میں میری تنخواہ نَوّے روپے تھی، کتابوں کی قیمتیں بہت کم تھیں ۔ میں ہر مہینے پانچ چھے روپے کی کتابیں خریدتا تھا، جن کی تعداد پندرہ سولہ تک پہنچ جاتی تھی۔ پھر ۱۲۵ روپے ہوئی تو ہر مہینے دس بارہ روپے کی کتب خریدتا تھا۔ آمدنی دو سو ہوئی تو خریداری کا سلسلہ بھی بڑھ گیا۔ پھر لکھتے ہیں کہ جیسے جیسے آمدنی بڑھتی گئی، کتابوں کی خریداری بھی بڑھتی گئی۔ لکھتے ہیں کہ ’’قرآنِ مجید سے مجھے خصوصی لگاؤ ہے، میں نے ہر قسم کے اور مختلف زبانوں میں کافی تعداد میں قرآن کے تراجم اور تفاسیر اکٹھی کی ہیں ، جو شاید کسی اور کی لائبریری میں کم ہی ہوں ۔‘‘ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے چالیس کے قریب کتب لکھی ہیں ، کچھ کتب ابھی غیر مطبوعہ ہیں جو عن قریب شائع ہو جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اس درویش صفت انسان پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے اور جنت الفردوس میں داخلہ فرمائے۔ آمین۔ زیادہ دن نہیں ہوئے یہاں کچھ لوگ رہتے تھے جو دل محسوس کرتا تھا علی الاعلان کہتے تھے
Flag Counter