Maktaba Wahhabi

391 - 924
’’اور تیسری بات ان کا اہلِ حدیث ہونا، وہ نماز میں رفع الیدین کرتے ہیں ، آمین بالجہر کہتے ہیں اور فاتحہ خلف الامام پڑھتے ہیں ، مگر نہ کسی حنفی سے الجھتے ہیں اور نہ لڑتے ہیں ۔ وہ اپنے مشرب کے پابند ہیں ۔ کسی منصب کے دعوے دار نہیں ، انھیں مل کر ہر ایک کو یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک وضع دار، بردبار، روادار شخص سے ملے ہیں ۔ نہ تکبر، نہ غرور اور نہ تصنع، نہ نفور، ورنہ جتنا علمی کام وہ کر چکے ہیں ، اگر کوئی اس کا بیسواں حصہ بھی کر لے تو وہ رازی و غزالی کو اپنے پاس بیٹھنے تو کجا پھٹکنے بھی نہ دے اور ایک جہازی سائز کا اشتہار صرف اپنے القاب و خطابات کے لیے وقف کر دے۔ مولانا اسحاق بھٹی بلند مقام تو ہیں ، مگر رہے گمنام کہ یہی اچھے لوگوں کا خاصہ ہے۔‘‘(ماخوذ: رشکِ زمانہ لوگ) پروفیسر عبدالجبار شاکر(متوفی: ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)بھٹی صاحب سے متعلق ان کی کتاب ’’قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ ‘‘کے مقدمے میں لکھتے ہیں : ’’اسحاق بھٹی نے تن تنہا تحقیق کے جو ہفت خواں طے کیے، یہ ان کی شخصیت کے جوہر کو نمایاں کرتے ہیں ۔ قدرت نے انھیں ایک ایسا اسلوب عطا کیا ہے جو اردو زبان وادب کے اسالیب میں ایک انفرادیت کا حامل ہے۔ ان کے ہاں معروف ادیبوں اور دانشوروں کی طرح نہ تو حکمائے مغرب کی کتابوں کے اقتباسات ہیں اور نہ وہ اپنے مطالب کے اظہار کے لیے مشکل تراکیب اور ادق اصطلاحات کا سہارا لیتے ہیں ۔ ان کے ہاں اسلوب میں ابلاغ کی حد درجہ خوبی دکھائی دیتی ہے۔ ان کا قلم شستہ اور پیرایہ شگفتہ ہے۔ سادگی میں پرکاری کے نقوش ان کی تحریر کا خاصا ہیں ۔ انھوں نے نصف صدی تک جو علمی جواہر پیدا کیے ہیں ، ان میں ابو الکلام رحمہ اللہ کی نثری بلاغت، شبلی کی مورخانہ بصیرت، سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا اسلوبِ تحقیق، مولانا مودودی رحمہ اللہ کا دعوتی انداز، رشید احمد صدیقی رحمہ اللہ کی سی شگفتہ نگاری، مولوی عبدالحق رحمہ اللہ کی سی سادہ بیانی، مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اللہ کی جامعیت، مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کا حکیمانہ اسلوب، مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی سادگی اور کتاب دوستی اور علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی طلاقتِ لسانی کی جھلکیاں ان کی تحریروں کے مختلف صفحات پر نمایاں دکھائی دیتی ہیں ۔‘‘ پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ ، بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی کتاب ’’میاں عبدالعزیز مالواڈہ رحمہ اللہ ‘‘کے مقدمے میں لکھتے ہیں : ’’ان کا اشہبِ قلم نئے سے نئے میدانوں میں شہسواری کے کمالات دکھا رہا ہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت عجیب دلآویزیوں کا مجموعہ ہے۔ ان کے مطالعے میں بے پناہ وسعت ہے۔ ان کے حافظے اور استحضار پر ایک عالم کو رشک ہے۔ ان کے اسلوب کی چاشنی دیدنی ہے۔ ان کی گفتگو ’’وہ کہیں اور سناکرے کوئی‘‘ کے مصداق ہے۔ اسلوب اگر اعلیٰ ابلاغ کے تقاضوں کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ اس دور کے صاحبِ طرز ادیب ہیں ۔ زبان کی سادگی اور شگفتگی نے ان کے طرزِ نگارش کو ایک انفرادیت عطا کی ہے۔
Flag Counter