Maktaba Wahhabi

414 - 924
سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے سوانح میں حیرت انگیز واقعات اور معلومات افزاتفاصیل پیش کر دی ہیں ، جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں ۔ اسی طرح حافظ عبداللہ بہاول پوری رحمہ اللہ پر جو کچھ لکھا، خوب لکھا اور بہت لکھا۔ اس پر عرفی کا شعر یاد آیا: ؎ ہدی راتیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ(پیر آف جھنڈا)کے ذکر میں آخری صفحات پر یہ انکشاف فرمایا کہ وہ بھٹی صاحب کے استاد بھائی بھی تھے، مگر تاخر و تقدم کے فرق کو واضح کرنے کے لیے فارسی شعر لکھا(اور صحیح لکھا): ماومجنوں گوھر یک معدنیم ما نخستینیم او دُنبالِ ما ’’میں اور مجنوں ایک ہی کان کے جواہر ہیں ، ہم پہلے تھے اور وہ بعد میں آئے۔‘‘ مجھے معلوم نہیں یہ کس شاعر کا شعر ہے، البتہ اس کی دروبست سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود محمد اسحاق بھٹی ہی کا ہے اور وہ بھی معنی خیز فارسی میں ! یہ ’’ماومجنوں ‘‘ والا ایک شعر مجھے بھی یاد ہے اور میں نے پہلے الفاظ پر گمان کیا تھا شاید بھٹی صاحب وہی شعر لکھنے والے ہیں ۔ یعنی: ؎ ماومجنوں ہم سبق بودیم در دیوانِ عشق اُو بہ صحرا رفت وما در کوچہ ہا رسوا شدیم لیکن ان کے نخستینیم و دنبال نے راستہ صاف کر دیا اور دیوانِ عشق سے بچ کر نکل گئے۔۔۔! بھٹی صاحب نے جن بزرگوں کی محفل جمائی ہے، ان میں عابد وزاہد، شب زندہ دار، علم وعمل کے مخزن اور فکر و نظر کے کہسار دکھائی دیتے ہیں اور ان پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے: نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں آسمانِ سلفیت کے یہ کواکب آج بھی ہمارے سینوں میں جگمگارہے ہیں ۔ ہم بھٹی صاحب کی کار فرمائی پر ان کے ممنونِ احسان ہیں اور ان کی جانفشانی اور جگر کاوی پر مبار ک باد پیش کرتے ہیں ۔ ع ایں کار از تو ’’آمد‘‘ ومرداں چنیں کنند
Flag Counter