Maktaba Wahhabi

47 - 924
سے پہلی ملاقات ہوئی۔ میں نے مولانا سے گھر کا ایڈریس لیا اور اگلے دن صبح ہی ان کے گھر پہنچ گیا۔ باتوں باتوں میں مَیں نے اظہار کیا کہ آپ تاریخِ اہلِ حدیث پر کچھ کام کریں گے؟ مولانا رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں تو کام کے لیے تیار ہوں اور فارغ ہوں ، اگر کوئی کروائے تو ضرور کروں گا۔ میرے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ میرے گھر کے ماہانہ اتنے اخراجات ہیں ۔ چنانچہ میں نے اس سلسلے میں الشیخ مشعل السعید حفظہ اللہ سے بات کی تو وہ راضی ہو گئے۔ کویت میں تمام احباب بھی اس عظیم منصوبے پر بہت خوش تھے، جن میں حضرت مولانا عبدالخالق مدنی، مولانا محمد بشیر الطیب رحمہ اللہ ، حافظ محمد اسحاق صاحب اور دیگر احباب شامل ہیں ۔ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے اس سلسلے کی پہلی کتاب ’’برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد‘‘ لکھی۔ مولانا نے جب اپنی کتاب ’’برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد‘‘ مکمل کرنے کے بعد اس کا مسودہ مولانا محمد رفیق زاہد صاحب کو، جو لجنۃ المساجد گوجرانوالہ میں قسم الدعاۃ کے ذمے دار تھے، دیا تو مجھے خط لکھا کہ میں نے کتاب مکمل کر دی ہے اور میرے پیشِ نظر چونکہ اور بھی کئی علمی منصوبے ہیں ، لہٰذا اسی پر اکتفا سمجھیں ۔ مجھے اس پر بڑا شاک لگا۔ میں نے حضرت مولانا عبدالقادر ندوی رحمہ اللہ کو فون کیا اور اپنے پروگرام کا ذکر کیا اور عرض کی کہ آپ بھٹی صاحب کو کہیں کہ وہ ہمارے منصوبے پر ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں ۔ مولانا ندوی رحمہ اللہ سے فقیر کے پرانے تعلقات تھے اور وہ مجھ پر بہت مہربان تھے۔ مولانا ندوی رحمہ اللہ نے مجھے تسلی دی کہ تم بے فکر ہو جاؤ، میں بھٹی صاحب سے بات کروں گا اور وہ ان شاء اﷲ آپ کی خواہش کو پورا کریں گے۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا خط آیا کہ میرے ذہن میں تھا کہ آپ صرف یہ کتاب لکھوانا چاہتے ہیں ، مگر اب ان شاء اﷲ اس سلسلے میں میرا مکمل تعاون ہو گا۔ پھر بفضلہ تعالی انھوں نے بھرپور انداز میں اس سلسلے پر کام کیا۔ جزاہ اللّٰہ أحسن الجزاء۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے اکثر فون پر کتابوں کے سلسلے میں مشورے اور بات ہو جاتی تھی۔ جب بھی ان سے بات ہوتی، جی کرتا کہ بات لمبی ہو۔ ان کی گفتگو میں خلوص اور محبت تھی۔ میں جب بھی پاکستان آتا تو کم از کم دو مرتبہ تو ان کے ہاں حاضری ہوتی، وہ ہمارے مخدوم و مربی تھے۔ میرے بیوی بچوں میں ان کا احترام ایک والد کی طرح کا تھا اور وہ بھی ہم پر والد ہی کی طرح شفقت فرماتے تھے۔ جب بھی بات ہوتی تو نام بنام بچوں کے بارے میں دریافت فرماتے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو مرکز دعوۃ الجالیات کویت آنے کی دعوت دی، جسے انھوں نے بخوشی قبول فرما لیا۔ فرمانے لگے کہ میں چاہتا ہوں سفرِ کویت کے ساتھ ساتھ عمرہ بھی ہو جائے۔ چنانچہ بھٹی صاحب پہلے سعودی عرب گئے اور پھر کویت آئے۔ اس سفر کی مکمل روداد انھوں نے تحریر کی جو ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘(ستمبر ۲۰۰۸ شمارہ ۳۶ سے اکتوبر ۲۰۰۸ شمارہ ۴۰)میں شائع ہوئی۔ 3 جولائی 2008ء کو جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی کویت کے مرکزی ہال میں ایک جمِ غفیر کی موجودگی میں
Flag Counter