Maktaba Wahhabi

472 - 924
سادہ مزاج اور ممتاز ترین مدرس۔ انھیں استاذِ پنجاب کہا جاتا تھا اور وہ واقعی استاذِ پنجاب تھے۔ مولانا محی الدین اور مولانا معین الدین رحمہما اللہ کے ماموں ۔ ۱۸۸۲ء میں ان کی ولادت لکھو کے میں ہوئی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے خاندانی مدرسے میں مشغولِ درس و تدریس ہوئے اور حیاتِ مستعار کے آخری دم تک یہی خدمت ان کا مرکزِ توجہ رہی۔ سیکڑوں اصحابِ علم نے ان سے تحصیل کی۔ دیگر علومِ متداولہ کے ساتھ ساتھ صرف و نحو میں وہ درجۂ امامت پر فائز تھے۔ ان کے بیٹوں کا ذہن بھی ان علوم کے سلسلے میں بڑا زرخیز تھا۔ موجودہ حضرات میں بھی اس کے اثرات نمایا ں ہیں ۔ ۲۶؍ فروری ۱۹۵۲ء کو مولانا مرحوم کا انتقال اوکاڑہ میں ہوا اور چک نمبر ۱۸(نزد رینالہ خورد)میں انھیں دفن کیا گیا۔ حافظ احمد سے لے کر لمحہ موجود تک کا عرصہ تین سو سال کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس عرصے میں لکھوی خاندان کے علمائے عالی مرتبت، جن خدماتِ دینی میں مشغول رہے، وہ یہ ہیں : 1۔ تصنیف وتالیف۔ 2۔ درس وتدریس 3۔ وعظ وخطابت۔ 3۔ لوگوں کی روحانی تربیت ان خدماتِ چہارگو نہ میں انھوں نے بڑی شہرت پائی۔ خاص طور پر پنجاب کے زیادہ ترعلمائے اہلِ حدیث یا تو براہِ راست لکھوی علماء کے شاگرد ہیں یا ان کے شاگردوں کے شاگرد۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں : ........ علمائے غزنویہ میں سے حضرت مولانا عبدالواحد غزنوی، مولانا عبدالرحیم غزنوی، مولانا عبدالغفور غزنوی اور مولانا عبدالاول غزنوی رحمہم اللہ نے لکھو کے جاکر مولانا عبدالقادر لکھوی اور مولانا محی الدین عبدالرحمان لکھوی رحمہما اللہ سے استفادہ کیا۔ اس اعتبار سے جن حضرات نے ان غزنوی علما سے تحصیلِ علم کی، وہ مولانا عبدالقادر لکھوی اور مولانا محی الدین عبدالرحمان لکھوی رحمہما اللہ کے بالواسطہ شاگرد ٹھہرے۔ ان شاگردانِ گرامی علما میں حضرت محدث حافظ محمد گوندلوی، حضرت حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہم اللہ اور دیگر بہت سے حضرات شامل ہیں ۔ اسی تعلقِ تلمذ کی بنا پر مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ چھوٹے بڑے تمام لکھوی علما کا بے حد احترام کرتے تھے۔ لکھویوں کے متعلق مولانا داود غزنوی کی اولاد میں بھی جذبہ احترام پایا جاتا تھا۔ سید ابوبکر غزنوی ایک حادثے میں لندن میں فوت ہوئے تھے۔ ان کی میت لاہور آئی تو کسی نے کہا: جنازہ کون صاحب پڑھائیں گے؟ مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے بڑے بیٹے مولوی عمر فاروق غزنوی نے جواب دیا: ہمارے بزرگوں کے لکھوی خاندان کے بزرگوں سے استادی شاگردی کے تعلقات تھے، اس لیے جنازہ مولانا معین الدین لکھوی پڑھائیں گے، چنانچہ اُنھیں اوکاڑہ اطلاع دی گئی، وہ لاہور آئے اور انھوں نے جنازہ پڑھایا۔ ........مولانا عبدالوہاب دہلوی رحمہ اللہ بانی جماعت غربائے اہلِ حدیث کا آبائی تعلق پنجاب سے تھا۔ انھوں نے صرف و نحو اور بعض دیگر علومِ مروّجہ کی کتابیں لکھو کے جاکر لکھوی علما سے پڑھیں ۔ قرآنِ مجید بھی وہیں حفظ کیا۔ اس
Flag Counter