Maktaba Wahhabi

563 - 924
میں خطابت و امامت کا فریضہ ادا فرماتے۔ چینیاں والی مسجد کے نہ وہ امام تھے نہ خطیب۔ یہ البتہ ممکن ہے کہ کبھی نماز کے وقت اس مسجد میں آئے اور جماعت کرا دی۔ اسی طرح کبھی خطبہ بھی ارشاد فرما دیا۔ میں نے پرانے بزرگوں سے ہی سنا ہے کہ مستقل طور پر یہ ذمے داری کبھی ان کے سپرد نہیں ہوئی۔ اس لیے ان کا اسمِ گرامی چینیاں والی مسجد کے خطبا و ائمہ کی فہرست میں نہیں آتا۔ رہے مولانا عبداﷲ شائق مؤی تو ان کا تذکرہ آپ نے مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رحمہ اللہ کی تصنیف: ’’تراجم علمائے حدیث ہند‘‘(ص: ۴۳۲)میں پڑھ لیا ہوگا۔ ان کو حضرت حافظ عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ نے چینیاں والی مسجد میں بہ طور مدرس بھیجا تھا، لیکن طلبا نے ان سے پڑھنے سے انکار کر دیا اور وہ واپس چلے گئے۔ ان کا مسجد کی خطابت یا امامت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ اس وقت مسجد کے خطیب و امام حضرت مولانا عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ تھے، ان کی موجودگی میں یہ منصب انھیں کیسے حاصل ہو سکتا تھا؟ اس مسجد کے پنج وقتی امام بہت عرصے تک حافظ محمد شریف مرحوم بھی رہے تھے، ان کا خطابت سے کوئی تعلق نہ تھا، حالاں کہ وہ دینیات کے عالم تھے۔ نہایت پارسا اور صالح بزرگ۔ اس زمانے میں مسجد کے خطیب مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ تھے اور وہ حافظ مرحوم کا بے حد احترام کرتے تھے۔ مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے احساسات چینیاں والی مسجد کے بارے میں نہایت نازک تھے۔ اس کی خطابت اور امامت کا معاملہ ان کے نزدیک بڑا اہم تھا۔ اگر اس موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں تو اس کے متعلق تمام واقعات کی اچھی طرح جانچ پڑتال کر لیں ۔ مولانا اس کے منبر کو مولانا عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ کا منبر کہا کرتے تھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں کو بے حد اہمیت دیتے تھے۔ چینیاں والی مسجد کی تاسیس کے سلسلے میں مولوی نور احمد چشتی کی ’’تحقیقاتِ چشتی‘‘ کا مطالعہ کیجیے۔ مساجد کے متعلق ایک کتاب ڈاکٹر عبدالرحمن(یا عبداﷲ چغتائی)کی تصنیف ہے۔ یہ بہت عمدہ کتاب ہے۔ اس کا نام میرے ذہن میں نہیں آرہا۔ پنجاب یونیورسٹی لائبریری یا پنجاب پبلک لائبریری میں ضرور ہوگی۔ ایک مرتبہ مجھے اس کی ضرورت پڑی تو ایک مرحوم دوست کی ذاتی لائبریری سے مل گئی تھی اور میں نے اس سے استفادہ کیا تھا۔ کئی سال ہوئے لاہور کی مساجد کے بارے میں ایک صاحب تحقیق کر رہے تھے۔ جن میں چینیاں والی مسجد بھی شامل تھی۔ وہ میرے پاس بھی اس سلسلے میں آیا کرتے تھے۔ مکتبہ قدوسیہ کے قریب ایک دکان کے اوپر ان کی رہایش تھی۔ یہ معلوم نہیں کہ ان کا کام مکمل ہو گیا تھا یا نہیں ۔ مکتبہ قدوسیہ والوں سے بھی(بقول ان کے)ان کا تعلق تھا۔ آپ تو تین سطروں میں سوال پوچھ کر فارغ ہوگئے۔ میرا اس کے جواب میں پورا دن صرف ہوگیا۔ اور جس ضروری کام میں مصروف تھا، وہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ آخر میں گزارش ہے کہ ۱۹۱۰ء سے لے کر آج تک چینیاں والی مسجد کے مستقل خطبا و ائمہ کی فہرست میری معلومات کی رو سے یہ ہے: 1۔مولانا عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ 2۔مولانا داود
Flag Counter