Maktaba Wahhabi

574 - 924
استاد۔ جب وہ مدینہ یونیورسٹی زیرِ تعلیم تھے، تو بھٹی صاحب سے خط کتابت اور ٹیلی فون پر رابطہ رہتا تھا۔ آپ بھٹی صاحب کی کتابوں سے از حد دلچسپی رکھتے ہیں ، اور ان کی ہر آنے والی نئی کتاب کے منتظر رہتے اور اس سلسلے میں بھٹی صاحب کو خط لکھتے رہتے۔ اسی قسم کے ایک خط کا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے یوں جواب دیا۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم مکرمی جناب عبدالمجید صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ! مکتوب گرامی مرسلہ ۱۴؍ ستمبر ابھی ابھی ملا۔ بہت شکر گزار ہوں ، آپ نے یاد رکھا۔ نہایت خوشی ہوئی کہ آپ مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کا مستقبل بہتر کرے اور آپ علم و عمل کی نعمت سے مزین ہوں ۔ آمین۔ اس سے بھی مسرت ہوئی کہ آپ نے اس فقیر کی متعدد کتابیں خرید کر پڑھی ہیں ۔ حال ہی میں میری ایک کتاب ’’ہفتِ اقلیم‘‘ مکتبہ قدوسیہ نے شائع کی ہے، اس میں سات بزرگانِ دین کے حالات خاصی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ۔ وہ ہیں : (۱)۔مولانا ابو الا علیٰ مو دودی (۲)۔علامہ احسان الٰہی ظہیر (۳)۔حکیم عبد اﷲ روڑوی (۴)۔مولانا محمد اسحاق چیمہ (۵)۔غازی محمود ھرم پال (۶)۔مولانا محمد یحییٰ شر ق پوری (۷)۔مولانا عبدالقادر رائے پو ری۔ یہ کتاب پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ ایک اور کتاب مکتبہ کتاب سرائے اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے، اس کا نام ہے: ’’برصغیر میں علمِ فقہ‘‘ کتاب ۱۹۷۳ء میں ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کی طرف سے چھپی تھی۔ اب ۳۷ سال کے بعد چھپی ہے۔ ’’دبستانِ حدیث‘‘ کے بعد ’’گلستانِ حدیث‘‘ کی کمپوزنگ ہو چکی ہے۔ چار سو سے زائد صفحات کی پروف ریڈنگ بھی کر لی گئی ہے۔ یہ کتاب ان شاء اللہ جلد ہی معرضِ اشاعت میں آئے گی۔ جماعت اہلِ حدیث سے متعلق دو کتابیں اور مکمل ہوگئی ہیں ۔ یہ کتابیں ان شاء اللہ مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ لاہور چھاپنا چاہتا ہے۔ حضرت مولانا ثناء اﷲ امرتسری مرحوم و مغفور کی کیسٹیں اور آواز کے متعلق گزارش ہے کہ وہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو لاہور پہنچے۔ پھر انھیں لاہور سے گوجرانوالا کے حضرات لے گئے۔ گوجرانوالہ میں انھوں نے ایک جمعہ پڑھایا۔ پھر سرگودھا تشریف لے گئے اور ۱۵؍ مارچ ۱۹۴۸ء کو وفات پاگئے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ان کی وفات تک کیسٹوں کا سلسلہ جاری نہ ہوا تھا۔ ان کی وفات کے کئی سال بعد یہ سلسلہ جاری ہوا۔ میں نے ان کی صرف ایک تقریر ۱۹۳۹ء میں سنی تھی، جب کہ میری عمر صرف چودہ سال تھی۔ میں ان کی آواز نہیں پہچانتا۔ لیکن کیسٹ میں جو آواز ان کی طرف منسوب کی گئی ہے، وہ میرے خیال میں ان کی نہیں ہے۔ کسی اور مولانا ثناء اللہ کی ہے۔ جب ان کے زمانے میں کیسٹوں کا سلسلہ ہی نہیں تھا تو ان کی یہ آواز کیسے آگئی؟ کیسٹوں والے اپنی دکان داری کے لیے بہت کچھ کرتے ہوں گے۔ یہ بھی دکان داری ہی معلوم ہوتی ہے۔
Flag Counter