Maktaba Wahhabi

576 - 924
حکیم صاحب کی بیٹی کی شادی ان کے مرزائیت کے دائرے میں داخل ہونے سے پہلے ہوئی تھی۔ ۴۔ ثنائی سٹوڈیو کے بارے میں مجھے کسی بات کا علم نہیں ۔ کسی سے پوچھ کر آپ کو بتاؤں گا۔ امید کہ مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ اخلاص کیش محمد اسحاق بھٹی ۱۱؍ نو مبر ۲۰۰۷ء اب مکتوب الیہ کے قلم سے زیرِ نظر خط کی توضیحات ملاحظہ فرمائیں : سلطان القلم حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے اس مکتوب گرامی سے متعلق درج ذیل نکات وضاحت کے لیے ضروری ہیں : (۱)۔ سید میر شاہ رحمہ اللہ پنجابی شاعر تھے۔ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟ ان کے حصولِ علم و معرفت اور زندگی مبارکہ کے باقی واقعات سے متعلق میں نے حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے استفسار کیا تھا۔ ان کے حکم کے مطابق مولانا محمد ابراہیم خلیل کے پاس(حجرہ شاہ مقیم)حاضر ہوا۔ لیکن انھیں بھی اس بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ بعد میں حضرت مولانا عبداللطیف مرحوم نے(مکتبہ اصحاب الحدیث، اردو بازار لاہور)جو میرے دوست تھے، مجھے بتایا کہ حضرت سید میر شاہ کی اولاد گجرات کے ایک گاؤں ’’کنجاہ‘‘ میں آباد ہے۔ ان سے ضروری معلومات مل سکتی ہیں ۔ (۳)۔ ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ آغا شورش کاشمیری مرحوم کی وفات کے بعد کسی زمانے میں روزنامہ ہوگیا تھا اور ان کے بیٹے مبشر شورش اس کے ایڈیٹر تھے۔ اس کے کچھ پرچے میں نے خریدے اور پڑھے تھے۔ ۴۔ مرزائیوں کی خلقی عادت ہے کہ وہ علمائے اہلِ حدیث کے خلاف مختلف النوع ہرزہ سرائی میں مصروف رہتے ہیں ۔ ایک قادیانی مربی نے ایک مجلس میں یہ شوشا چھوڑا تھا کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی اولاد نے لاہور میں فلموں کی تیاری کے لیے ایک سٹوڈیو تعمیر کیا تھا، جس کا نام انھوں نے مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے نام پر ثنائی سٹوڈیو رکھا تھا، جسے جماعتِ اسلامی نے خرید کر اپنے مرکز منصورہ میں شامل کر لیا۔ اس سٹوڈیو کے بارے میں مجھے تفصیلات درکار تھیں ۔ یہ بات ریکارڈ میں آجانی چاہیے کہ محولہ بالا سٹوڈیو لاہور کے ایک معروف کاروباری شخص چوہدری ثناء اللہ نے تعمیر کروایا تھا، لیکن بعض وجوہ کی بنا پر کامیاب نہ ہو سکا۔ جماعت اسلامی نے 85لاکھ روپے میں خرید کر اسے گرا دیا اور خالی رقبے کو مرکز منصورہ میں شامل کر لیا۔(بحوالہ: ’’نگارخانوں کے عروج و زوال کی داستان‘‘ از قلم طاہر سرور میر۔ جمعہ میگزین، روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور، ۲۴؍ اگست ۱۹۹۰ء) اس کی وضاحت آغا شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ’’مولانا ابو الکلام آزاد، سوانح و افکار‘‘ میں صفحہ نمبر ۴۵ پر ان
Flag Counter