Maktaba Wahhabi

59 - 924
دعا ہی کرتے رہے۔ نہ حریفانہ کیمپ میں کبھی شامل ہوئے اور نہ حلیفانہ مدح سرائی کا نغمہ ہی الاپا۔ (3)۔ اللہ نے تحریر و انشاء کا سلیقہ بحظ وافر عطا فرمایا تھا، جس سے انھوں نے خوب خوب کام لیا، بالخصوص شخصیت نگاری اور احوال و وقائع کی منظر کشی میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا اور برصغیر پاک و ہند کی ممتاز علمی، دینی، سیاسی شخصیات کی خدمات اور ان کی امتیازی خوبیوں کو اپنے شگفتہ قلم سے اس طرح صفحاتِ قرطاس پر منتقل کیا کہ وہ بھی ملی اور مسلکی تاریخ میں امر ہوگئے اور ساتھ موصوف بھی امر ہوگئے۔ ؎ ہر گز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق ثبت است بر جریدہ عالم دوامِ ما (4)۔ طبیعت بڑی باغ و بہار پائی تھی، مزاج میں ظرافت اور بذلہ سنجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جس محفل میں بیٹھتے، اسے زعفرانِ زار بنائے رکھتے، ان کی گفتگو میں لطیفے، چٹکلے، بزرگوں کے دلچسپ واقعات کا ایسا تسلسل ہوتا کہ طلسم ہوش ربا یا داستانِ الف لیلیٰ کا سماں بندھ جاتا۔ گویا بقول غالب: پھر دیکھیے اندازِ گل افشانی گفتار رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے (5)۔ ان کی قوتِ حافظہ بھی نہایت قابلِ رشک تھی، بایں سن و سال، یعنی نوے سال کی عمر کے باوجود اپنی حیاتِ گذشتہ کے دوران میں سیاسی تحریکوں ، استخلاصِ وطن میں سرگرم پارٹیوں اور ان کے قائدین اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور داروگیر کے واقعات اور دیگر سماجی سرگرمیوں کی تفصیلات ماہ و سال کی تاریخوں کے ساتھ اس طرح بیان کرتے، گویا یہ چند ہی دن پہلے کی باتیں ہیں ، اسی قوتِ حافظہ اور مضبوط یادداشت کی وجہ سے انھیں شخصیات نگاری میں بھی بڑی مدد ملی اور لطائف و ظرائف اور دلچسپ تاریخی واقعات کے ذریعے سے محفلوں کی روحِ رواں بنے رہنے کے مواقع بھی خوب میسر آئے۔ (6)۔ مزاج و طبیعت کے مرنجاں مرنج ایسے تھے کہ اختلافی باتوں سے بالعموم گریزاں اور دل آزارانہ لہجے سے ناآشنا، اور سادگی بھی ایسی انتہا کی کہ فقر و درویشی بھی بلائیں لے۔ یہ تھے مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ جو اہلِ حدیث شخصیات نگاری کی وجہ سے ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ ابھی ان سے مزید توقعات وابستہ تھیں اور لوگ بہت سے تاریخی اور سوانحی خلاؤں کے پُر ہونے کے منتظر تھے کہ ع آں قدح بشکست و آں ساقی نماند زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے۔ غفر اللّٰہ لہ ورحمہ و أجزل جزاء ہ و جعل الجنۃ مثواہ، و یرحم اللّٰہ عبداً قال آمینا۔
Flag Counter