Maktaba Wahhabi

610 - 924
کے ایک ذی مرتبہ خاندان کی دختر تھیں ۔ اسی اعتبار سے مولانا کو ابتدائی ماحول پیری مریدی کا ملا، انھوں نے تعلیم بھی روایتی اور مذہبی پائی۔ ابھی درسِ نظامی کی آخری جماعتوں سے گزر رہے تھے کہ اللہ داد صلاحیت و ذہانت کے جوہر کھلنے لگے۔ اسی عرصے میں سر سید کے مطالعے نے ان کے موروثی عقائد کی دنیا میں تہلکہ مچا کر انھیں بغاوت پر آمادہ کر دیا۔ لیکن دستِ غیب کو اس متاعِ گم گشتہ کی حفاظت کرنا تھی، چنانچہ جلد ہی راہِ راست پر آ گئے۔ عہدِ طفولیت میں شعر و شاعری سے دلچسپی پیدا ہوئی، لیکن عنفوانِ شباب میں قدم رکھا تو اپنے دور کے وقیع رسائل ’’الصباح‘‘، ’’لسان الصدق‘‘، ’’وکیل‘‘، ’’دارالسلطنت‘‘، ’’تحفہ احمد‘‘ اور ’’الندوہ‘‘ کی ادارت کا فخر حاصل ہوا۔ ادبی دنیا کی توجہ بے اختیارانہ مولانا کی جانب اس وقت مبذول ہو گئی، جبکہ ان کی عمر ۱۵، ۱۶ سال سے زائد نہ تھی۔ چناں چہ ۱۹۰۴ء میں لاہور کی انجمن حمایتِ اسلام نے اپنے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لیے ایڈیٹر ’’لسان الصدق‘‘ کو مدعو کیا۔ اس اجلاس میں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بھی موجود تھے۔ مولانا ابو الکلام آزادؔ نے اجلاس میں خطبہ پڑھا تو بڑی مشکل سے حاضرین کو یقین آیا کہ وہی آزاد ہیں جو ’’لسان الصدق‘‘ کے مدیر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۱۶ برس تھی اور اس عمر کے نوجوان سے اس ذہانت اور علم وفضل کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس کے بعد سارے ہندوستان نے ان کو جان لیا اور نہ صرف علامہ شبلی نعمانی، شیخ عبدالقادر اور مولانا حالی رحمہم اللہ جیسے معروف صحافی اور ادیب بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہو گئے، بلکہ عام مسلمانوں میں بھی ان کی شہرت و مقبولیت کا مظاہرہ ہونے لگا۔ ان کی آواز میں جو کڑک، چمک اور للکار تھی، اس نے خوابیدہ مسلمانوں کو بیدار ہی نہیں کیا، بلکہ اس نئے جہاں کی سیر بھی کرائی جو انقلاب کی چنگاریوں سے بھرا ہوا تھا اور یہی چنگاریاں تحریکِ خلافت کے دور میں شرارہ بن کر فضا کو دہکانے لگیں ۔ نتیجتاً برصغیر میں وہ عدیم المثال تحریکِ ترکِ موالات شروع ہوئی، جس نے محض دو سال کی مدت میں استعمار اور استبداد کے مستحکم قلعے میں ایسی سرنگیں لگائیں کہ ۴۷ ۱۹ء میں وہ ہمیشہ کے لیے منہدم ہوگیا۔ مولانا رحمہ اللہ نے ۱۹۱۲ء میں ’’الہلال‘‘ اور ۱۹۱۶ء میں ’’البلاغ‘‘ جاری کیا تو گویا ان دو رسالوں کے ذریعے اردو صفحات کو معراجِ کمال تک پہنچا دیا۔ وہ اہلِ حدیث مکتبِ فکرکے نامور سپوت تھے۔ ان کی ہندوستان گیر مقبولیت اور شہرت کا ایک بڑا سبب ان کی بے پناہ قوتِ گو یائی اور سحرانگیزخطابت تھی۔ انھوں نے انگریزی حکومت کی مخالفت اس وقت کی، جب انڈین نیشنل کانگریس کے راہنما اس کی وفا داری میں قرار دادیں منظور کر رہے تھے۔ پہلی جنگِ عظیم کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے مولانا قید و بند کا شکار بنائے گئے۔ مولانا رحمہ اللہ کی زندگی سوائے آخری چند سالوں کے بڑی ہنگامہ خیز گزری۔ ان کی تخلیقات کا بڑا حصہ جنگِ آزادی کی صعوبتوں کی نذر ہو کر ضائع ہو گیا۔ تاہم جو کچھ محفوظ رہا، اس میں ’’تذکرہ‘‘ اور ’’ترجمان القرآن‘‘ ان کی ایسی مستقل تصانیف ہیں جو منظرِ عام پر آ سکیں ۔ ان کی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ کو نہ صرف سراہا گیا، بلکہ اس کو شاہکار قرار دیا گیا۔
Flag Counter